استاذ روحانی باپ ہوتا ہے شاگردوں کو بتایا جاتا ہے استاذ والدین کی طرح ہوتا ہے والدین اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ میرا بیٹا ہمیشہ استاذ کا احترام اسی طرح کرنا جس طرح میرا ادب واحترام کرتے ہو۔ استاذ کا ہمیشہ احترام کرنا ، استاذ کا ادب کرنا ، استاذ کی بات ماننا ، ان کے حکم کو ٹالنا نہیں۔ تاریخ کے نقوش میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اساتذہ کے حکم پر شاگردوں نے سب کچھ چھوڑ دیا بلکہ اساتذہ کی محبت اور حکم پر اپنا وطن بھی چھوڑ دیا وہ شاگرد کامیاب و کامران ہوئے بہت سے دنیا میں حکمران ہوئے کچھ نے لوگو ں کے دلو ں پر راج کیا۔ کچھ نے لوگوں کے جسموں پرراج کیا ۔
میں نے خود جن اساتذہ سے پڑھا ہے ان سب کی قدر ومنزلت میرے دل و دماغ پر اس طرح ہے کہ میںحقیقتاً ان کا غلام و نوکر ہوں وہ میرے آقا و مولا ہیں میرے اساتذہ حقیقتاً اور واقعة نیک سیرت ، فرشتہ صفت ، با کردار ، باحیاء جو اپنے شاگردوں کیلئے شفیق ماں باپ کی مانند تھے۔ ان باکمال اساتذہ کا کردار ہمارے لئے گہرے اثرات اور زندگیوں میں انقلاب کا ذریعہ بن گیا ۔ ان اساتذہ کے اخلاق ، خلوص ، دل سوزی و ہمدردی و خیر خواہی کو دیکھ کر لکھنا پڑتا ہے اور زبان سے بولنا پڑ تا ہے۔
اپنے استاذوں کو پایا ہم نے مشفق مہرباں
حق نے بخشے ہیں انہیں اوصاف میر کارواں
کہاں سے شروع کروں کس کانام لکھوںکس کا تذکرہ کروں کتنا لکھوں کیسے لکھوں میر ے پاس ان کی شان کے مطابق الفاظ نہیںجو دل و دماغ میں موجود ہیں اس کے اظہار کیلئے طاقت نہیں ۔
قارئین کے سامنے میں اپنے اساتذہ کا تذکرہ کن الفاظ میںکروں فارسی کا کتنا پیارا جملہ ہے ۔۔۔
ہر گلِ را رنگ بوئے دیگر است
کہ ہر پھو ل کااپنا رنگ ہے اپنی خوشبو ہے
اساتذہ کرام کی محبت جب دل میں آجائے اوروہ نظر نیچے کیے ہوئے تشریف فرما ہوں تو آنکھیں ان کے اس منظر کو دیکھ رہی ہوںتو زبان کوپھر کہنا پڑتاہے ۔۔۔
نظر کو نیچی کئے سر جھکائے بیٹھے ہیں
یہی تو ہیںجو میرا دل چو رائے بیٹھے ہیں
ا ن کے کمالات ان کے نمایاں کار ہائے بے مثال کا ذکر کرتے ہوئے میں اپنے آپ سے مخاطب ہوں ۔۔۔۔۔۔
اے جوش جنوں بیکار نہ رہ کچھ خاک اڑا ویرانے کی
دیوانہ تو بننا مشکل ہے صورت ہی بنا دیوانے کی
چالیس سال تک با وضو پڑھانا
ایک زندہ مثال۔۔۔ گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول نمبر 1 مانسہرہ کے استا د محترم ٢٠٢٠کے درمیان میں ریٹائرڈ ہوئے انہو ں نے اپنی الوداعی تقریب میں بتایا کہ میں نے چالیس سال تک سکول پڑھایا ہے او ر میں کبھی سکول کی کلا س میں بغیروضو کے نہیں گیا ۔ انہی اساتذہ سے تاریخ بنتی ہے اور تاریخ میں زندہ نقوش ملتے ہیں
اس عظیم شخصیت کا نام گرامی حاجی غلام مرتضیٰ صاحب ہے جو مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمة اللّٰلہ علیہ کے شہر بفہ کے رہائشی ہیں۔
اللّٰلہ کے قرآن کا ایک عاشق
یا الٰہی روز و شب توفیق احساںدے مجھے
خوف اپنا ظاہر و باطن میں یکساں دے مجھے
حب ِ سنت یا الٰہی حبِ قرآں دے مجھے
حب ِ اہل بیت و اصحاب ِ ذیشاں دے مجھے
نسبت بھی عجیب چیز ہوتی ہے ہماری دو خالہ دو بھائیوں کے گھر میں تھیں ایک بھائی کا نام فقیر اللّٰلہ خان( شہید رحمتہ اللّٰلہ علیہ) دوسرے بھائی کا فضل الرحمن ۔ یہ حضرات منشائی سواتی قوم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے ایک بھائی ہمارے نہایت محترم اور مکرم جب وہ کالج دوراہا میں قرآن سنایا کرتے تھے تو بیان کیلئے ہمیں بلا یا کرتے تھے میری مراد پیکر اخلاص قاری قرآن صاحب مجد و لاکرام محترم قاری عبدالقیوم صاحب ہیں ۔ آپ چھ سال جامعہ محمودیہ جیا میرا میں اللّٰلہ کے قرآن کو پڑھا تے رہے اور تقریباً تین سال جامع مسجد الیاسی میں پڑھاتے رہے ۔ ستائیس سال سعودی عرب ریاض میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ اس وقت مدرسہ انوارالقرآن میں د رس و تدریس کی نگرانی اور اہتمام کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اس مدرسہ میں دو کلاسیں چل رہی ہیں ۔ قاری صاحب بڑے خلوص کیساتھ قرآن و سنت کی یہ آواز لگا رہے ہیں امید ہے کہ ان شاء اللّٰلہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور دونوں مدارس کا فیض جاری و ساری رہے گا ۔ اللّٰلہ تعالیٰ اس چمن کو ہمیشہ آبادر کھے ( اٰمین )