صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
ہفتہ 20 اپریل 2024 

چادر اور چاردیواری کا تصور

علی جان لاہور | بدھ 17 مئی 2023 

چادر اور چاردیواری کا تصور
 مقالہ نگار    مقالہ نگران
  عروہ ندیم    ڈاکٹرمحمدوقاص
ایم فل السلامک سٹڈیز
شعبہ علوم اسلامیہ
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ،اسلام آباد ،پاکستان
سیشن :2022-2020
تمہید:
اللّٰلہ رب العزت نے اس دنیا کو بنایا اور اسمیں مختلف مخلوقات حیوان ،نباتات ،جن و انس پیدا فرماۓ اور ان کی مختلف اجناس مذکرومونث بنائی ۔سب کے لیے حدود اورقوانین مقرر کیے تاکہ وہ اس کے مطابق پرسکون زندگی بسرکر سکیں اسی طرح عورت کے لیے بھی چند حدود و قوانین بناے جو کہ کسی حکمت سے خالی نہیں جن میں سے ایک پردہ اور حجاب ہے جو کہ ایک قرآنی قانون ہے۔یہ ایک ایسا قانون ہے جس کو عورت اپنا لے تووہ عزت ،وقار ،اعلی خصوصیات قیمتی جزبات کی حفاٖظت کرسکتی ہے 
پردہ کے معنی :گونگھٹ اورچھپانہ ۔یہ لفظ عربی زبان  میں حجاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے 
اصطلاحی معنی میں پردہ احکام کا وہ مجموعہ ہے جو اسلامی ضابطہ معاشرت کے لیے نہایت اہم اجزا پر مشتعمل ہے 
عورت کے معنی:کو عربی زبان میں عورت کو نساء کہتے ہیں اور نساء کے معنی ہے "چھپی ہوئی " چیز اور پردے  کا مطلب چھپانا 
پردہ اور عورت میں ربط:پردہ اور عورت کا معنی ایک ہے اور معنی ایک ہونےسے یہ بات واضح ہے ہوتی ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے
پردہ کا حکم قرآنی قانون کی روح سے
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚ ذٰلِكَ اَزْكـٰى لَـهُـمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ  
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا  
وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ ٱلۡأُولَىٰۖ  
زمانہ جاہلیت اور عورت 
لڑکیوں کو ناپسند کرنا زمانہ جاہلیت کی گندی اورناپسندیدہ عادت ہے نومولود بچیوں کو ماں کی گود سے چھین کر زندہ قبر کے گھاٹ اتار دیا جاتا جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہوتی وہ شرم کے مارے گھر سے باہر نا نکلتا لڑکیوں کو کمتر سمجھا جاتا ،وراثت سے محروم کیا جاتا عورت کی تو کوئی قدر و قیمت ہی نا تھی سربازار اسکو نیلام کیا جاتا۔
یونانی مذہب :یونان انسانی تاریخ میں تہذیب وتمدن اورعلم و فن کا سب سے قدیم گہوارہ مانا جاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود عورت کو کوئی احترام حاصل نہ تھا 
سقراط جواس دور کا مشھورفلسفی تھا'اسکا خیال ہے :
"عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی کوئی چیز نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اس کو کھالیتی ہے تو وہ مرجاتی ہے “ 
انسائیکوپیڈیا برٹانیکا کے الفاظ میں"قدیم یونانی تہذیب میں عورت کا مقام اتنا گہرا دیا گیا تھا کہ اس کی حیثیت بچے پالنے والی لونڈی کی ہوگئی تھی'عورتوں کو ان کے گھروں میں قید کردیا تھا'وہ تعلیم سے محروم تھین 'ان کے شوہر انہیں گھریلوں سامان کی طرح سمجھتے تھے 
رومی مذہب:اس معاشرے میں بھی عورت کو اس کے جائز حقوق سے سے محروم رکھا گیا اس کی کوئی قابل احترام حثیت نہ تھی عورت کے معاملہ مہں نرمی کا برتائوبالکل نہ تھا وہ سنگدلی اور شفقت قلبی کی بھینٹ چڑھ جاتی اگر مرد کو اس کے کردار پر کچھ شبہ ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر موت کے گھاٹ اتار دینے کا حق رکھتا تھا ۔مزید یہ کہ اپنی خواہش کے مطابق اسے مارڈالنے کا طریقہ کار اپنانے کا بھی مرد مکمل اختیار تھا  
یورپ:جو مادیت پرستی میں مگن ہے اور دورحاضر میں مساوات ،عدل اور عورتوں کے  ناجائزحقوق کے متعلق بڑھ  چڑھ کر بول رہا ہے اسکا جائزہ لیجیے کہ تاریخ میں یورپ میں عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا عورت مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی کوئی ایسا قانون نہیں تھا جو عورت کو مرد کی زیاتیوں سے پناہ دیتا
عورت کسی قسم کا بھی معاملہ نہیں کرنے میں آزاد نہیں تھی وہ اپنے اختیارات سے کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی تھی حتی کہ اسکو یہ بھی اجازت نا تھی کہ خود کماکر اپنی ذات پر خرچ کرے 
John stuart mill  اپنی کتاب" محکومیت نسواں "میں لکھتا ہے
"انگلستان کے قدیم قوانین میں مرد کو عورت کا بادشاہ تصور کیاجاتا تھا بلکہ اسکا بادشاہ مانا جاتا تھا 'یہاں تک کہ شوہر کے قتل کا اقدام قانونی اصطلاح ،میں بغاوت ادنی کہلاتا تھا اور عورت اسکا ارتکاب کرلے تو اسکو پاداش میں جلادینے کا حکم تھا"
مصر:میں بھی ایسی رسمیں رائج تھی جو عورت کو نہایت پستی میں ڈھکیل دینے کے لیے کافی تھی نکاح کے بعد عورت مرد کی ملکیت قرار پاتی بلکہ شادی کے بعد عورت کا سارا مال بھی مرد کے نام ہوجاتا وہ مرد کی غلام بن کر رہ جاتی  
عرب:اسلام کے آنے سے پہلے عرب بھی عورت کے ساتھ نہایت برا سلوک کرتے تھے عورت کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا اسے منحوس سمجھا جاتا مرد کو مالک بنایا جاتا عورت کو ایک کھیلونا سمجھا جاتا اور ایک عام شے کی طرح بازارمیں اس کی فروخت ہوتی 
اسلام کے آنے کے بعد عورت کی زندگی :اسلام ایک باضابطہ دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو گھیرے ہوئے ہےایسا مذہب جو ہیمں سلامتی ،حسن سلوک،مساوات ،عدل و انصاف کا درس دیتا ہے جو صبر کی تلقین کرتا ہے،بھائی چارگی اور رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیتا ہے ۔اسلام کے آنے سے پہلے زمین ظلم و ستم کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ماں کو وراثت کا مال سمجھا جاتا تھا ،بیٹی کو شرم کا باعث اور اسکو زندہ درگور کرتے اس پر مرد محکوم ہوتے شوہر کے مرنے پر اس سے بھی جینے کا حق چھین لیا جاتا مخصوص ایام میں اسکو گھر سے نکال دیتے  اس کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا مزدوری کا کام لیا جاتا اور اسکا معاوضہ ان کی محنت سے کئی گنا کم دیا جاتا جو نہ کے برابر ہوتا وہ اپنے حقوق کے متعلق بات کرنے کے متعلق بول کئا سوچ بھی نہ سکتی تھی لیکن جب اسلام آیا تو گویا اس کی زندگی کے بجھے چراغ کو روشنی ملی اسلام وہ دین ہے جس کے آنے سے عورت کو وہ مقام ملا جو اسے دنیا کا کوئی مذھب کوئی معاشرہ نہ دے سکا  ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی عورت کو وراثت مین حصہ ملا عورت سے سختی والے کام لے لیے گئے  وہ مرد جو اسپر محکوم ہوتا تھا اسکا بادشاہ بنا پھرتا تھا اس کو عورت کا محافظ بنایا گیا بیٹی کی صورت میں اللّٰلہ کی رحمت بنا یا ۔عورت کو صنف نازک کہا گیا  شادی کا حق ، مہر کا حق،کفالت کا حق ،خلع کا حق بھی اسے دین اسلام کی وجہ سے ملا اس سے پہلے وہ ان حقوق سے محروم تھی اسکوگھر کی ملکہ کہا گیا حدیث کا مفھوم ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکم ران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے ۔اسپر آسانی کی راہیں کھولی گئی  تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عورت کو اسلام نے عزت و وقار کا وہ ملکہ دیا جو اسے کسی اور معاشرے اور مذہب میں نہیں ملا۔   اسلام نے علم کو فرٖض قرار دیا اور مردوں اور عورتوں پر علم حاصل کرنے کو فرض قراردیا اسکی طرف ترغیب دلائی نبی کریم ﷺ نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے اورایک اور حدیث کا مفھوم ہے جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو اچھی تعلیم دلوائی ان کی شادی کی اور ساتھ حسن سلوک کیا تو اسکے لیے جنت ہےجس طرح علم مردوں میں پھیلا اسی طرح عورتوں میں بھی پھیلا قرآن و حدیث کا علم ان عورتوں کے پاس بھی تھا ہمارے پاس سب سے واضح مثال حضرت عائشہ کی ہے کہ بڑے بڑے صحابہ نازک مسائل کے فتوے ان سے اخذ کیا کرتے تھے اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے دائرے سے نکال کر بحثیت انسان عورت کو مرد کے برابر کا درجہ دیا 
اسی طرح معاشی میدان میں بھی عورتوں نے اسلام کی بدولت قدم رکھا عورت نے تجارت بھی کی ،میدان جھاد میں بھی اگے بڑھی  اسلام کے سوا تمام قوانین نے عورت کو معاشی حثیت سے کمزور کر دیا اور یہی کمزوری عورت کی غلامی کا سبب بنی یورپ نے اس حالات کو بدلنا چاہا مگر اس طرح کہ اسے کمانے والا ایک فرد بنا دیا یہ ایک عظیم خرابی کا باعث بن گیا اسلام بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے شوہر اسے مہر دیتا ہے اور جو کچھ مال اسے پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبضہ وتصرف کا پورے حق اسے دیے گئے جن میں مداخلت کا ا ختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے ،نہ شوہر کو مزید یہ کہ اگر وہ تجارت میں روپیہ لگاکر،یا خود محنت کر کے کچھ کمائے تو اسکا مالک بھی وہی ہوگی اور اس سب کے باوجود اس کے شوہر پر اس کا نفقہ واجب ہے اس طرح اسلام عورت کی معاشی حثیت اتنی مستحکم ہوگئی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے  
تمدنی حقوق بھی ملے شوہر کے انتخاب کا حق ملا اسلام نے اس کی آگلی زندگی گزارنے کے لیے اس کے ہمسفر کے انتخاب مین آزادی دی اس کی پسند کا حق بھی اسے اسلام کی خاطر ملا عہد نبوی مین بھی اس کی مثال ملتی ہے کہ جب حضرت بریرہ کے شوہر غلام تھے انکا نام مغیث تھا وہ ان کی محبت میں وہ روتے تھے اور آنسووں سے ان کی داڑھی تر ہوجاتی لیکن جب بریرہ نے ان سے نکاح کو فسخ کرنے کے متعلق فیصلہ کیا تو نبی کریم نے اس کے متعلق ان کو آزادی دی کہ وہ نکاح کو فسخ کر سکتی ہین البتہ نبی کریمﷺ نے مغیث کی طرف سے سفارش کی تھی۔اسی طرح حضرت فاطمہ سے بھی حضرت علی کے متعلق پوچھا گیا تھا 

نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ 
   لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن
خواتین نے حدود میں رہتے ہوئے جھاد جیسےکارعظیم کو سرانجام دیا ام سلیم ،ام حرام ،ام حکم حضرت خولہ بنت ازور  کی مثال دنیا سے چھپی  نہیں جنہوں نے فتوح شام کی سلسلہ وار جنگوں مین حصہ لیا  قدر انصاری کو انہوں نے تلوار سے مارا دشمن فوجوں کا مقابلہ کرنا ان کی بہادری کی ناقابل انکار دلیل ہےیہ بھی ایک عورت تھی عورتوں کو جھاد کی اجازت کس سے ملی یہ بہادری کی راہ دشمں کا مقابلہ ڈٹ کر کرنے کا جواز اسلام سے ملا یہ ہے دین اور اس سے پہلے تو وہ گھر سے باہر بھی نہ جا سکتی تھی اور احساس کمتری مین مبتلا رہتی 
اسلام نے بعض مقامات پر عورت کو ترجیح دی ہے مرد پر فوقیت بھی دی ہے مثال کے طور پر والدین میں سے اولاد کا ماں کی خدمت کرنا باپ کے مقابلے میں زیادہ لازمی قرار دیا نبی کریم ﷺ سے سوال کیا ایک شخص نے کہ میں کس کے ساتھ بھلائی کروں ؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ دوبارہ اسکا تکرار کیا گیا تو آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ بھی فرمایا تیری ماں اور جب چوتھی مرتبہ پوچھا گیا تو تب فرمایا تیرا باپ۔ یہ عدل الہی کا تقاضہ ہے ۔غور کیا جائے تو اگر اللّٰلہ نے ایک حق مرد کے لیے بنایا تو دوسرا عورت کے پلڑے میں رکھ دیے 
مغرب کا حقوق نسواں کے نام پر کھیل :مغرب جو حقوق نسواں کے نام پر معصوم لوگوں کو گھیر رہا ہے اور حقوق کے نام پر اپنا مکاری اور فریب کا جال بچھا کر بحجاب خواتین کو گھر کے بجائے سڑکوں کی زینت بنا رہا ہے نام و نہاد آزادی دلانے کے لیے آواز بلد کی گٰئ آزادی کے نام پر کیا ملا بے راہ روی اور فحاشی کے ڈیرے 
عالمی خواتین کے موقع پر پوری دنیا میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے یہ جلوس میکسیکو ، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی میں بھی ہوئے اور اسٹریلیا میں بیک وقت چالیس شہروں میں 85 ہزار سے زائد مظاہرے کیے ،کالے کپڑے پہن کر علامتی سوگ منایا گیا ۔ 
مغرب کی حقوق نسواں کے نام پر جو سازش پروان چڑھ رہی ہے ملک عزیر میں مغرب پروردہ خواتین تنظیمون  کی جانب سے مغربی ایٖجنڈے کی تکمیل سے ایسے کھیپ تیار ہورہی ہے جو ملک میں عورتوں کو نام و نہاد آزادی کے نام پر سڑکوں پر لا کر فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے کا سبب ہے 
مغرب آزادی سے غلط سوچ لیتا ہے اورغلط نظریے کا فروغ دیتا ہے مغرب کے نزدیک آزادی خاندانی حدود اور ذمہ داریون کو قید سمجھنا مرد کے ہرطرح کے اختیارات سے آزادی ،بچوں کی پیدائش سے آزادی حمل کو ساقط کرنے کی مکمل آزادی ۔پردے اور گھر کی ملکہ بننے اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو قید سمجھنا ۔
مغرب کو سب سے زیادہ نہ پسند مسلمان عورتون کا حجاب کرنا ہے اور وہ چاہتےہے کہ ہر عورت فیشن کی دلدادہ بن جائے تمام مردوں کی آنکھون کو پرکشش کرے اور دونوں جنسوں کے مابین صنفوں کے درمیان جنسی مسائل بالکل معمولی بنانا اور اس سب کے لئے عورتوں کو نشانہ بنایا گیا  
خلاصہ : اس تمام مذکورہ بات سے یہ چیز روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کو جو عزت مرتبہ جینے کا حق ملا وہ اسلام کی ہی بدولت ملا اور اسلام سے پہلے جو اس کی حثیت تھی وہ بھی ظاہر ہے جس اسلام نے اسے ایک بہترین زندگی دی سماجی ،تمدنی اور معاشرتی حقوق دیے ایک انسان کی حثیت بخشی اسی اسلام نے اس کی عزت و احترام کے لیے چند حدود مقرر کیے تاکہ اس کی حفاظت و منزلت برقرار رہے اور عورت کو چاہیے وہ ان حدود کے دائرے کار میں رہ کر اپنی زندگی بسر کرے اس کے برعکس مغرب جو کہ دین اسلام کا کھلا دشمن ہے اس سے مسلمانوں کی خوشحالی دیکھی نا گئی تو اس نے عورتوں کو نشانہ بنایا انہیں اکسایا اوران کے حجاب اور ذمہ داریوں کو قید قراردیا انہیں حقوق کی آزادی کے نام پر فاحشہ بنا ڈالا لہذا یہ جانا جائے کہ اسلام نے خواتین کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے حدود کے دائرے میں تیرہ سوسال پہلے ہی ان کوآزادی دے دی تھی۔بحرحال اسلام نے جو حقوق دیے ہین ان سے یہ خیال ضرور ذہن نشین کر لیں کہ عورت چادر کو اوڑھے ہوےت گھر کی چاردیواری میں ہی محفوظ ہے۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔