مسلم لیگ (فنگشنل) کے جنرل سیکرٹری محمد علی درانی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کیلئے سرگرداں ہیں۔انھوں نے کہا کہ "ان کے پاس ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ہے۔مولانا فضل الرحمن نے شرائط کیساتھ ڈائیلاگ کو آگے بڑھانے کا کہا ،جلد سیاسی درجہ حرارت میں کمی ہوگی۔ کوئی بھی ڈائیلاگ اتفاق سے نہیں ، اختلاف سے شروع ہوتا ہے۔مجھے یقین ہے ،سب مذکرات کی میز پر بیٹھیں گے ، ملک میں اس وقت ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔اپوزیشن کے استعفوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا، ملک کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کہہ چکے ہیں ،بات چیت ہونی چاہیے،اگر حکومت اور اپوزیشن کا ٹکرائو بڑھتا رہا تو عوام کا ردعمل آئے گا۔ٹریک ٹو ڈائیلاگ کی ملاقاتیں خفیہ ہی ہوتی ہیں، استعفوں کے بعد بھی بات کرنی ہوگی تو پہلے ہی کیوں نہ کرلی جائے، ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایک ایجنڈا نکل آئے جس پر بات ہوسکے، موجودہ حالات میں آگ پر تیل ڈالنے کی بجائے پانی ڈالنے کاکام کیا جائے۔" یہ بات درست ہے کہ مسائل کا حل ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے ۔مسائل گولی یا برا بھلا کہنے سے حل نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات کے میز پر حل ہوتے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت کو اچھا ماحول میسر آیا تھا لیکن انھوں نے عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے اپنے آپ پر چھٹی نماز فرض کردی۔ اپوزیشن پر جتنے کرپشن کے مقدمات ہیں ،وہ انھوں نے خود ایک دوسرے پر درج کیے ہیں۔مقدمات جانیں اور عدالتیں جانیں۔ان مقدمات کا پی ٹی آئی سے دُور سے بھی تعلق یا واسطہ نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت ہر چیز اپنے کھاتے میں ڈالتی ہے ۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی حکومت اس دیہاتی آدمی کی طرح ہے کہ اس کے سامنے جو بات کریں تو وہ کہتا ہے کہ وہ کام میں نے کیا ہے۔سب کو علم ہے کہ اپوزیشن پر مقدمات سابقہ ادوار میں ہوئے ہیں اور اب عدالتیں ان کو سزا دیتی ہیں یا چھوڑتی ہیں،پی ٹی آئی حکومت کا ان کیساتھ کیا ناتا ہے۔اگر سابقہ حکمران کرپٹ ہیں تو عمران خان کے کابینہ میں زیادہ تر وہ افراد جلوا گر ہیں جو سابقہ حکومتوںکے کابینہ میں شامل تھے ، پھریہ لوگ کہاں سے پارسا اور پاک صاف آگئے؟عمران خان دن میں متعدد بار کہتے ہیں کہ میں این آر او نہیں دوں گا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم این آر او دے سکتے ہیں؟ عمران خان کو سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ان کو اپنی حکومت کی کارکردگی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت میں ڈالر تقریباً ایک سو روپے سے ایک سو ساٹھ روپے پر پہنچا، وزیر اعظم عمران خان اُس کیلئے ایک غیرجانبدار جے آئی ٹی بنائیں ۔چینی مافیا، آٹا مافیا، ادویات مافیا اور مہنگائی کرنے والے عناصر کوگرفت میں لیں تاکہ آئندہ کیلئے کوئی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی جسارت نہ کرسکے۔کرپشن اپنا کرے یا پرایا احتساب سب کاہوناچاہیے۔وزیراعظم عمران خان ہر جلسے میں فوج کا نام استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح اپوزیشن بھی اپنے جلسوں میں فوج کا تذکرہ کرتی ہے۔سیاسی معاملات میں فوج کو شامل نہ کریں۔ فوج آئین اور قانون کے مطابق اپنا فرض ادا کررہی ہے اور سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے۔اس ملک کیلئے افواج پاکستان نے لازوال قربانیاں دی ہیں ۔ افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں نے وطن کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جوکہ ناقابل فراموش ہے۔علاوہ ازیں پوری قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اپنے معاملات آپس میں ڈائیلاگ کے ذریعے حل کریں۔جن سیاستدانوں نے کرپشن کی ہے ،ان کو یقینا عدالتیں شوائد کے مطابق سزائیں دیں گی کیونکہ کرپٹ عناصر کی سرکوبی ضروری ہے۔ ریاست کے دیگر معاملات میں سیاستدانوں کو مل کر بیٹھنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ (فنگشنل) کے جنرل سیکرٹری محمد علی درانی نے خفیہ ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے لیکن خفیہ ملاقاتوں کا باب بند ہونا چاہیے کیونکہ خفیہ ملاقاتوں سے خدشات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر اب بھی وہی پرانی ڈگر پر چلنے کی روش ترک نہیں کرتے تو پھر اس کا رزلٹ کیسے بہتر ہوگا۔ ملاقاتیں عوام کے سامنے ہونی چاہییں۔ ملک اور ملت کیلئے سوچنا چاہیے اور ملک کیلئے سب کو کام کرنا چاہیے۔ ہر شہری اور ہر عہدہ دار کو صرف اور صرف پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے سوچنا چاہیے۔پاکستان پر قرضوں کا بوجھ غریب عوام نے نہیں چڑھایا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ غریب لوگوں نے نہیں کیا ۔ مراعاتیں غریب شہریوں کو حاصل نہیں ہیں۔غریب لوگ مہنگائی کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔غریب شہری اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔غریب عوام کے پاس علاج کیلئے رقوم نہیں ہیں۔غریب لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکتے ہیں۔غریبوں کیلئے دو وقت کھانے کا حصول مشکل ہورہا ہے۔ارباب اختیار کو ملک اور ملت کیلئے سوچنا چاہیے۔موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے شرائط پر عمل نہیں کرنا چاہیے ۔ پی ٹی آئی حکومت کو الیکشن مہم میں کیے گئے وعدوں پر عمل کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔ وزیراعظم پاکستان عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی ون این اے 95 کے تبی سر، روغان اور ٹولہ بانگی خیل کے دیہاتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے جہاں 95 فی صد دیہات پختہ رابطہ سڑکوں ، پینے کے صاف پانی ، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور وہاں کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔وہاں انسان و حیوان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔تبی سر، روغان اور ٹولہ بانگی خیل کے دیہاتوں میں لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔ وہاں صرف دو یاتین دیہاتوں کی طرف توجہ دی جارہی ہے اور باقی دیہاتوں کو نظرا نداز کیا جارہا ہے۔وزیراعظم کے انتخابی حلقے میں کالاباغ شکردرہ روڈ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ان لوگوں کا ایف سی کوٹہ بھی موجودہ حکومت میں ختم کردیا کیا گیا یعنی لوگوں پر روزگار کا دروازہ بھی بند کردیا گیا ہے۔اس علاقے کے ممتاز سماجی و سیاسی رہنما میجر (ر) اقبال خٹک لوگوں کیلئے تگ ودو کررہے ہیں اور مسائل کو اجاگر کرتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔غریب عوام جائے تو کہاں جائے۔ارباب اختیار کو اپنی روش تبدیل کرنی چاہیے اور غریب عوام پر توجہ دینی چاہیے۔غریب عوام نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں اورکڑوی گولیاں نگلی ہیں۔اب وطن عزیز پاکستان کیلئے صدر ، وزیراعظم ، چیئرمین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ،سینٹرز، وزرا ء اور مشیران معمولی سی قربانی دیں،اپنی تنخواہیں اور دیگر مراعاتیں نہ لیں تو اس سے قومی خزانے پر بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔ ارباب اختیار کو مہنگائی ،بے روزگاری اور ملک کے اہم مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔اب ملک اور ملت کیلئے مذاکرات کرنے چاہییں۔اب ڈائیلاگ ذاتی مفادات کی بجائے صرف پاکستان کیلئے کرنے چاہییں ۔ ہماری پہچان اور شان پاکستان۔پاکستان پائیندہ باد۔#