صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 29 مارچ 2024 

مہنگی ادویات, فائدہ کس کو

طاہر ایوب جنجوعہ | پیر 28 ستمبر 2020 


وزیر اعظم صاحب کے مشیر صحت کی دلیل تو سب نے سن ہی لی کہ ادویات کی قیمتیں9 فیصد سے 262 فیصد تک بڑھانے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کچھ ادویات مارکیٹ سے غائب تھیں جس کی وجہ سے وہ بلیک میں بکتی تھیں, اس لیے ہم نے قیمتیں بڑھا دیں تا کہ آسانی سے ہر جگہ دستیاب ہوں ۔ 
ویسے کیا ذہانت پائی ہے وزیر موصوف نے اور کیا خوب صورت حل نکالا ہے, کبھی کبھی تو اپنی قسمت پر رشک آتا ہے کہ کیسے کیسے عظیم حکمرانوں کی رعیت ہمیں نصیب ہوئی۔ کہ جن کا فلسفہ حکمرانی دیکھ کر ہر کوئی عش عش کر اٹھے۔ مطلب کہ اگر آپ کی بات کوئی نہیں مانتا, تو اگلے کی مان لو, کوئی سرکش آپ کی حکم عدولی کرتا ہے تو جو کچھ وہ چاہتا ہے اسے دے کر اپنا تعمیل ارشاد کروا لو۔ یعنی اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو یہ کہ آپ کے طے کردہ ریٹ پر پٹرول نہیں ملتا تو پمپ والوں کے مطالبات مان کر اسے نایاب ہونے سے بچا لیا جائے۔ آپ کی مقرر کردہ قیمت پر چینی نہیں ملتی تو شوگر ملز والوں کی ہی مان لیں تا کہ مارکیٹ میں یہ مٹھاس عام دستیاب ہو۔ دیگر اشیا خوردو نوش کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو کیا ضرورت ہے کسی ٹینشن میں پڑنے کی, چپ کر کے دیکھتے رہیں۔ اور جیسے چلتا ہے چلنے دیں, یہ نہ ہو کہ آپ کوئی نوٹس لیں اور وہ چیزیں مارکیٹ سے غائب ہو کر بلیک میں بکنا شروع ہو جائے, اور لوگ بھوکے مرنے لگیں۔ اسی طرح جان بچانے والی ادویات پر بھی کمپرومائز ضروری ہے, کیونکہ 50 روپے والی دوائی اگر بلیک میں تین سو کی بک رہی ہو۔ تو اسے دو سو روپے کا لیگل ریٹ دے کر عام کرنے سے بہتر بھلا کوئی اور آئیڈیا ہو سکتا ہے۔۔۔
یہاں کارل مارکس کا ایک قول بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے, وہ کہتا ہے؛ " وہ لوگ جنہوں نے سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو, اور بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو, وہ عام آدمی کی قیادت کے اہل نہیں" اب یہ کس قدر افسوس ناک المیہ ہے کہ 73 سالوں سے "الا ماشااللّٰلہ"  ہمارے ہاں حق حکمرانی صرف انہی لوگوں کو تفویض کیا گیا, جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ آپ تمام تاریخ پاکستان کے ادوار کو کھنگال کر دیکھ لیں, ایک عام معمولی حکومتی عہدے دار سے لے کر وزیر,مشیر صدر, وزیر اعظم تک سبھی ایلیٹ کلاس کے ہاتھ ہی اس سارے نظم و نسق کی باگ ڈور نظر آئے گی۔ ان سب میں شاید ہی کوئی ایسا ملے جو بھوک افلاس زدہ نچلے طبقے سے ہو کر اوپر گیا ہو۔ بدقسمتی سے لگژری بیڈ رومز سے نکل کر فرنشڈ سرکاری دفاتر اور محلات میں منتقل ہونے والی یہ 10 فیصد اپر کلاس, جن میں جاگیردار, وڈیرے, صنعت کار, سرمایہ دار,  بڑے بڑے بیوروکریٹ, سرکاری عہدیدار, جج, جرنیل سبھی شامل ہیں, 90 فیصد مڈل اور لوئر کلاس خالی ہاتھ طبقے کے سیاہ و سفید کے مالک ہمیشہ سے رہے, اور ابھی تک ہیں۔ یہ سونے کے نوالوں پر پلنے والے ایک غریب دیہاڑی دار کی نظر میں روٹی کے ایک ٹکڑے کی اہمیت و ضرورت کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔ یہ ٹھنڈے ٹھار بند کمروں میں نرم و گداز صوفوں پر براجمان ہو کر چلچلاتی دھوپ میں کمائے ہوئے چند سو روپوں کی قدر و قیمت سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔ یا انہیں اس بات سے کیا غرض کہ کوئی بھوک بیماری یا کسمپرسی سے مرے یا جیئے۔۔ انہیں تو یقینا اپنے گھر کاج, کاروبار, زمینوں, فیکٹریوں, کارخانوں اور تجارتی مفادات کی فکر ہو گی۔ اور بلاشبہ یہ تو لفظوں کان کنی سے سونا نکالنا جانتے ہیں۔ جب یہی حکومت میں ہوں گے تو اپنے مفادات کا کیسے تحفظ نہیں کریں گے۔
کاش کہ ان وزیر موصوف کو معلوم ہوتا کہ دوائی اگر بلیک میں ملتی ہے, تو اسے خریدنے والا کون ہے؟ اس کا خریدار یقینا مال دار یا اپر کلاس ہی ہے, اب غریب کے بس کی تو بات تو نہیں کہ وہ 100 روپے والی دوائی دو ہزار یا تین ہزار میں خرید سکے۔ غریب تو دوائی کو اس کی اصل قیمت پر خریدنے کیلئے بھی پتا نہیں کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی ادھار لیتا ہے, یا کہیں سود پر گھر کی کوئی چیز گروی رکھواتا ہے, یا گھر کی کوئی چیز بیچتا ہے۔ اس معاشی حالت میں کہ وہ روٹی سے مجبور ہو وہ بلیک میں یہ سوغات کیسے خرید سکتا ہے؟ 
 اب ایک لحاظ سے یہ فائدہ تو دوائی کو بلیک میں خریدنے والے کو ہی ہوا کہ اسے پہلے جو دوائی مہنگی ملتی تھی, اب حکومت کی مہربانی سے اسے لیگل طور پر بھی ملے گی اور پہلے سے کچھ سستی بھی۔ پہلے اسے بلیک میں خریدنے کیلئے جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے تھے, کیونکہ ہر کوئی بلیک والی چیز نہیں بیچتا, اب اسے آسانی سے اوپن مارکیٹ سے مل جایا کرے گی۔ اس سب کہانی میں غریب کا فائدہ کہاں ہے؟ وہ تو پہلے بھی سسک کر مر رہا تھا اب بھی مرے گا۔ 
اسی معاملے پر وزیر موصوف ایک دلیل یہ بھی لائے کہ چونکہ را میٹیریلز مہنگا ہونے سے فارما مینپکچررز انڈسٹریز کی کاسٹ بڑھ گئی ہے, اس لیے ان ادویات کو مہنگا کرنا ضروری تھا۔ تو اس کیلئے آخر میں جان کی امان پاتے ہوئے ایک ادنی سی گزارش کا ارادہ ہے کہ حضور اگر آپ کو فارما کمپنیز کی طرف سے ڈاکٹرز کو پیش کی جانے والے مراعات اور عنایات آج تک نظر نہیں آئیں, ڈاکٹرز کے ٹھاٹ باٹ اور آئے روز کے فارن ٹوورز بارے آپ آج تک بے خبر رہے ہیں, تو ایک غیر جانبدار اجلے کردار کے حامل محققین کا ایک پورڈ بنائیں جو فارما انڈسٹری کی پروڈکشن لاگت پر کام کرے, اور اس بارے صحیح, مستند اور اصل حقائق سامنے لائے, اور بتائے کہ را میٹیرلز مہنگا ہونے سے کتنا کچھ فرق پڑا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گیں۔ لیکن یہ اس صورت میں کہ اگر آپ اس ملک کے غریب کا درد سمجھتے ہیں۔ اور اس ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ بصورت دیگر افراتفری, مار دھاڑ, اور معاشی بدامنی کا عفریت تو پہلے ہی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ 

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔