صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 16 اپریل 2024 

کشمیر کی آزادی پر سودے بازی قبول نہیں !

شاہد ندیم احمد | بدھ اگست 2020 

 5اگست ایک ایسی سیاہ تاریخ ہے، جب بھارت کی انتہا پسندحکومت کے جنونی اقدام کو ایک سال ہو جائے گا، جس کے تحت بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری سے کئے گئے اپنے ہی وعدوں کو پامال کرتے ہوئے پہلے متنازع علاقے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارتی یونین کا حصہ بنانے اور علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی مذموم کوشش کی، بعدازاں ڈومیسائل سمیت قوانین کا ایک مجموعہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کے نام سے نافذ کردیا گیا ،جس سے مسلم اکثر یتی ریاست میں آبادی کا توازن تبدیل کرنے کے ارادے کھل کر سامنے آگئے ،مگر کشمیری عوام کے جذبہ حریت نے اس مسئلے کو کرہ ارض پر بسنے والے ہر فرد تک پہنچا دیاہے۔اس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو جس کیفیت کا سامنا ہے، اس کا ذکر خود بھارت کے سابق وزیر اور موجودہ رکن ایوان بالا (راجیہ سبھا) چدم برم نے ایک آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کے ایک بڑی جیل میں تبدیل کئے جانے کے اعتراف کیساتھ کیا اور نئی دہلی سرکار کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ 5اگست 2019ء کے اقدام سے مودی سرکار جو کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی وہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ 
بھارتی سر کار اپنے مذموم عزائم میں ناکامی کے باوجود بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے ،پانچ اگست کے اقدام کے بعد سے ہی کشمیریوں پر عرصہ حیات برے طریقے سے تنگ کردیا گیا ہے۔ مسلسل ایک سال سخت پابندیوں کا حامل لاک ڈائون جاری ہے جس سے بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ عالمی برادری کے علم میں کشمیریوں کے مظالم کی گو پوری داستانیں نہیں پہنچ رہیں، مگر جو بھی پہنچ رہے ہیں جگر کو چھلنی کرنے اور دل کو ہلا دینے کیلئے کافی ہیں۔ دنیا پر کشمیریوں کی مظلومیت اور بھارت کی سفاکیت عیاں ہو چکی ہے، مگر دنیا عالم صرف بھارت کی ان مظالم پر مذمت ہی کررہی ہے اور تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، لیکن اسکے جنونی ہاتھوں کو نہیں روکا جارہا، جبکہ اب بھارتی مظالم تشویش اور مذمت سے نکل کر عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ بھارت جب تشویش اور مذمت پر بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو اس کیخلاف عالمی طاقتیں کارروائی کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟درصل بھارت سے سب کے معاشی مفادات جڑے ہیں ،جس کے باعث زبانی کلامی مذمتی قراداوں کا کھیل کھیلا جارہا ہے ،لیکن یہ چشم پوشی اور ڈھیل دینے کا کھیل آئندہ آنے والے دنوں میں ان کے اپنے گلے پڑنے والا ہے۔
آج مقبوضہ کشمیر کی 90لاکھ کی نہتی آبادی پر دہشت گردی سے کئے گئے کڑے اور انتہائی ظالمانہ محاصرے کاایک سال ہو گیا، لیکن مودی سرکار دنیا پر واضح کرنے میں کتنا کامیاب رہی کہ اس نے مقبوضہ کشمیر اور متنازع لداخ ہڑپ کر لیا ہے، اگرچہ چین نے بھارتی آئین کی آرٹیکل 370کی بذریعہ پارلیمان غیرقانونی تنسیخ پر متنازع لداخ کے حوالے سے اپنا سخت اور واضح ردِعمل دینے میں ذرا تاخیر نہیں کی تھی، لیکن مودی اور اس کے بنیادی پرست ساتھیوں کا نشہ آنے والے چند ہی ماہ میں اتنا خطرناک ثابت ہوا کہ آج بھارتی دعوے کے مطابق لداخ کے کتنے ہی متنازعے علاقے چین کے عسکری و انتظامی کنٹرول میں آ چکے ہیں۔ پا کستان کو بھی شائد مقبوضہ کشمیر پر چین جیسا ردعمل دینا چاہئے تھا ،مگروہ مقبوضہ کشمیر میں پر امن عوامی رائے شماری کا منتظر رہا ہے، جو اقوام متحدہ اور امن کی علمبردار نام نہاد عالمی طاقتیں تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق نہ کرنے کے جرم کی مرتکب ہوئی ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے سے پہلے شروع ہونے والے ایک سالہ کڑے عسکری محاصرے نے ثابت کردیا کہ مقبوضہ علاقے کے کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں؟اور بھارت کو اس کے اظہار سے روکنے کے لئے کیا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن یہ معاملہ اس طرح ختم یا کم نہیں ہوگا اور نہ ہونے والا ہے، بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث آئندہ بھی خسارہ ہی خسارہ ہے۔
پا کستانی عوام کشمیری عوام کے شانہ بشانہ 5اگست یوم استحصال کشمیر کے طور پر منارہے ہیں،اس موقع پر جن عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ ہرپاکستانی اور کشمیری کے دل کی آواز ہے، لیکن ایسے بیانات تو پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔ کیا صرف بیانات کے ذریعے کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کرایا جا سکتا ہے اور کیا کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے کر دینے سے سرینگر تک پہنچنا ممکن ہو جائے گا؟ اس کیلئے سرینگر کو فتح کرنا ہو گا جو کشمیر ہائی وے کا نام بدلنے سے نہیں ہو سکتا،مگر حکومتی وزراء بیانات دے کر فرض ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں،ایک نے بڑی''دلچسپ'' بات کی ہے کہ''کشمیری لیڈ کریں،ہم پیچھے کھڑے ہیں، یعنی سچ اچھا پر سچ کیلئے کوئی اور مرے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پیچھے کھڑے ہونے والے وقت پڑنے پرپیچھے سے ہی نکل جاتے ہیں۔ پاکستان کے رہنماجب کشمیر کی محبت میںبڑی بڑی باتیں بنا رہے ہیں تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہم لیڈ کریں گے،لیکن اس کیلئے بڑی جرأت کی ضرورت ہے۔
 پا کستانی وزیر خارجہ کا کہنا بجاہے کہ پاکستان کی منزل سرینگر ہے،ایسا ہی ہونا چاہیے، لیکن اس کیلئے اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔مظفر آباد جانے والی سڑک کا نام سرینگر ہائی وے رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں اصل سرینگر ہائی وے واپس لینا ہے اور وہ ہم انشا اللّٰلہ اپنے زور بازو سے لے کر رہیں گے۔یوم استحصال پر ایک منٹ کی خاموشی سے عالمی ضمیر نہیں جاگے گا ، کیو نکہ وہ مفادات کی جادر اُڑھے کان بند کرکے سورہا ہے ۔ اس موقع پر خاموشی کی نہیں، بولنے کی ضرورت ہے،مظلوم کشمیری عوام کیساتھ واضح آوازسے آواز ملانے کی ضرورت ہے،تاکہ دنیا عالم کے بند کانوں میں بھی مظلوم کشمیریوں کی داستان غم پہنچائی جاسکے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کی کوششیں ہو رہی ہیں،مگر حکومت کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پاکستانی اور کشمیری قوم کسی قسم کی کوئی سودے بازی قبول نہیں کرے گی۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔