کشمیر جس کو پاکستان کا شہ رگ کہا جاتا ہے اس خطہ جنت نظیر میں تقریباستر سال سے جاری بربریت سفاکیت اورظالمانہ بھارتی رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر نے پانچ اگست کی مناسبت سے "جا چھوڑ دے میری وادی" کے نام سے نیا گانا ریلیز کردیا۔شہدا کی خون اور کشمیری ماں کی سسکیوں اور آہوں کو سکھ اور خوشی میں تبدیل کرنے کے لیے اور انڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہم اس سے زیادہ اور کر کیا سکتے ہیں۔کیونکہ ہمیں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے واضح پیغام دیا تھا کہ :آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے۔شمشیر وسناں اول طاس ورباب آخر۔لیکن نہیں ایسا نہیں پاکستان کا خواب دیکھنے والے نے اصل میں شعر کچھ یوں کہا تھا:آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے۔طاس ورباب اول طاس ورباب آخر۔اس لیے تو ہم پانچ اگست کے حوالے سے گانا ریلیز کر کے کشمیر کی آزادی کے طرف ایک قدم اور بڑھیں گے۔اس سے پہلے بھی ہم کشمیر کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کر چکے ہیں۔نہیں یاد کسی کو اف ابھی چند دن پہلے کی بات ہے ہمارے وزیر اعظم نے تقریر کی گولہ باری سے کشمیر کو آزاد نہیں کیا تھا اور بین الاقوامی سطح پر کشمیری کی جنگ نہیں لڑی تھی۔اس سے قبل24 نومبر 2019کو "حکومت پنجاب" کے زیر اہتمام کشمیر کے نہتے اور معصوم عوام پر جاری بھارتی ظلم اور بربریت کو بین الاقوامی سطح پر نئے انداز میں Akcent & J the band کے ساتھ میوزیکل نائٹ کا انعقاد کر کے اجاگر کیاگیا ہے۔یہ اشتہار آج بھی نیٹ پر موجود ہے اور ہماری روشن تاریخ کا حصہ ہے۔اس طرح کے مزید پے درپے اقدامات کرنے سے ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں۔ہم پاکستان کی شہ رگ کو میوزیکل نائٹ، گانے بجانے،فلموں اورتقریروں سے ہی فتح کریں گے۔ہمیں اس سے کیا غرض کہ کسی محلے میں کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو وہاں بلکہ اس کے آس پاس بھی گانے بجانے اور ڈھول نہیں بجاتے کیونکہ ان لوگ کی غم زدہ ہونے اور افسردہ ہونے کا خیال انسانیت کے ناطے سے رکھا جاتا ہے۔
ان کی خبری گیری کرنی ہوتی ہے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ نہ کہ ان لوگوں کی زخموں پر نمک پاشی کرکے ان کا حوالہ دے کر کہ یہ لوگ افسردہ ہیں دلگیر ہیں ان کے بھائی شہید ہوئے ہیں ان کے بڑوں نے قربانی دی ہے اپنا خون بہایا ہے ان کے زخم ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے تازہ رہتے ہیں اب ہم ان کا نام استعمال کرکے گانے بجائیں گے میوزیکل نائٹ شو کریں گے۔یہ کہاں کی غیرت ہے اور یہ کہاں کا انسانی رویہ ہے۔لیکن اس سے ہمیں کیا عرض ہم نے نئے انداز سے کشمیر ایشو کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔اور کشمیر کو آزاد کرکے ہی چھوڑنا ہے لیکن یہ آزاد کرنا کس معنی میں ہے کسی دوسرے سے آزاد کرنا یا اپنے آپ سے دور کر کے آزاد کرنا اس کی تشریح ہم آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔اب پتہ نہیں اگے کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ پاکستانی قوم نے گبھرانا نہیں۔کیونکہ ہم نے مصور پاکستان علامہ اقبال کے فرسودہ تعلیمات سے کیا لینا۔شمشیر وسناں کیا ہے ہمیں معنی بھی نہیں معلوم۔ ہمیں دوسرے طریقے سے کشمیر فتح کرنا ہے۔تو جان لو کہ اس طرح کے اقدامات سے اب کشمیر کو آزاد کرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔