صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
ہفتہ 20 اپریل 2024 

کرپشن کاسدباب فرد واحدکے بس کی بات نہیں !

شاہد ندیم احمد | جمعرات 30 جولائی 2020 

کرپشن کا سدباب کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے،ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق اس کے خاتمے کے لئے ادارے قائم کرتا اور قوانین بناتا ہے۔ پاکستان میں بھی جس کا کرپشن میں دنیا کے 180ممالک میں 120واں نمبر ہے، اس لعنت پر قابو پانے کے لئے اینٹی کرپشن کے محکمے سمیت کئی ادارے موجود ہیں۔ سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہے جس نے بلاشبہ کرپشن کے کئی بڑے اسیکنڈل پکڑے، مجرموں کو سزائیں دلوائیں اور اربوں روپے ریکور کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے، مگر سیاسی پارٹیاں اس کے طریق کار سے مطمئن نہیں، اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنے فیصلوں میں اس کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اپوزیشن اسے حکومت کے مخالفین کو دبانے کے لئے احتساب کے بجائے انتقام کا ذریعہ قرار دے کر سرے سے ختم کرنے کا مطالبہ کررہی ہے ،جبکہ حکومت بھی نیب کے قوانین میں اصلاح کی ضرورت محسوس کرتی ہے ،چنانچہ نیب آرڈی ننس اور دیگر قوانین میں ترمیم سے متعلق حکومت اپوزیشن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں، دونوں میں ترامیم کے مسودوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ حکومتی ٹیم نے اپوزیشن سے تحریری موقف مانگا ہے ،جبکہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سمیت مختلف قوانین کے حوالے سے حکومتی مسودے پر غور کیلئے مزید وقت کا تقاضا کیا ہے۔ فریقین زیر بحث معاملات پر قانون سازی لئے سنجیدگی سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو دونوں طرف سے مثبت رویے کا اظہار ہے ، توقع کی جارہی ہے کہ نیب قوانین کی اصلاح کیلئے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا،تاہم پس پردہ ذاتی مفادات اولین ترجیح نظر آتے ہیں۔
تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے اتنے دن نہیں ہوئے جتنے مسائل اور مشکلات اُس کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں۔ ہر روز کوئی مسئلہ، ہر روز کوئی مصیبت، ہر روز کوئی نئی پریشانی اپنا گھیرا تنگ کرنے لگتی ہے۔ اگرچہ ان میں سے زیادہ مشکلات اور پریشانیاں معمولی نوعیت کی ہیں، لیکن بے تدبیری کے باعث سنگین ہورہی ہیں۔ حکومت کی مشکلات زیادہ تر اپنی پیدا کردہ ہیں اور ان کو حل کرنے میں جس جلد بازی، بے عقلی اور ناتجربہ کاری کا مظاہرہ ہورہاہے، اس نے حکومتی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے مذید زیادہ کردیا ہے۔ بہرحال مشکلات بڑی ہوں یا چھوٹی، ان کا حل اب حکومت کی ذمے داری ہے۔ اب نہ تو حکومت پچھلی حکومتوں پر ذمے داری ڈال کر بری الذمہ ہوسکتی ہے اور نہ نعرے لگا کر اور چکنی چپڑی تقریریں کرکے عوام کو بہلا سکتی ہے،اُسے کچھ نہ کچھ کرنا ہے ، بلکہ سب کچھ اسے ہی کرنا ہوگا۔ حکومت اور حکمران جماعت کے اندرونی حلقے ان مشکلات کا اعتراف کرتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بہت سی مشکلات سے بآسانی بچا جاسکتا تھا ،لیکن اقتدار کے زعم میں وہی کچھ کیا گیا جو سابقہ حکومتیں کرتیآرہی رہی ہیں۔ پارٹی اور حکومت کے سنجیدہ طبقے صرف اس امید پر بہتری کے خواہاں ہیں کہ وزیراعظم چونکہ خود نیک نیت ہیں، حالات کی بہتری کے لیے اُن میں بڑا جذبہ موجود ہے، اس لیے حالات آخرکار بہتر ہوجائیں گے۔ اُن کا ماننا ہے کہ اگر اوپر دیانت دار اور ذمے داری کا احساس رکھنے والا موجود ہو تو نیچے سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم خود کاروبار نہ کرے، کمیشن اور کک بیکس نہ لے، اپنے اور اپنے خاندان کے لیے غیر ضروری سہولتیں نہ لے تو نیچے کا عملہ یہ سب کچھ کس طرح کرسکتا ہے! بظاہر اس مؤقف میں خاصی جان نظر آتی ہے اور خود وزیراعظم عمران خان بار بار یہی کچھ کہتے رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اوپر کے ایک شخص کے صحیح ہونے سے پورا ملک صحیح ہوسکتا ہے؟ اور کیا کرپشن، کام چوری اور ہیرا پھیری میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا پورا نظام محض ایک اچھے شخص کے آجانے سے یکدم درست ہوسکتا ہے؟ پاکستان میں عمران خان پہلے دیانت دار حکمران نہیں ،ان سے پہلے بھی دیانت داری کے حوالے سے مثال کا درجہ رکھنے والے حکمران رہے ، لیکن ہم ہر روز بروزکرپشن اور خرابی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں۔ 
پا کستانی عوام کو شخصیات کے سحر سے نکل کر حقائق کا سامنا کرتے ہوئے اپنی سوچ کے زاوئیوں کو تبدیل کر نا ہو گا ،ملک میں صرف اوپر سے بہتر اور دیانت دار آدمی کے آنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے موجودہ فرسودہ نظام کو تبدیلی کرنا ہوگا، احتساب کے عمل کو سخت اور بلاامتیاز بنانا ہوگا، لیکن یہاں کرپشن کے خلاف قانون کو نرم اور بے اثر بنانے کے لیے ترامیمی مسودے پیش کئے جارہے ہیں۔ اپوزیشن تو نیب کے قانون کا مکمل خاتمہ چاہتی ہے،کیو نکہ انہیں ملک وعوام کی بھلائی نہیں اپنی جان عزیز ہے۔ گزشتہ سال نیب کے قانون میں ترامیم کرکے کاروباری افراد اور اعلی سرکاری افسروں کو اسکی گرفت سے باہر نکالا گیااور اب کوشش کی جارہی ہے کہ قانونی ترامیم کے ذریعے اس کے دائرہ اختیار سے ارکانِ پارلیمان کو بھی تحفظ دیا جائے، اس کی شقوں کو اتنا نرم بنایا جائے کہ عملی طور پر قانون بے اثر ہو کر رہ جائے ،جب آپکا قانون یہ کہئے گا کہ کروڑوں' اربوں روپے کے معاملہ میںقانون' قاعدہ کی خلاف ورزی کرنے والے کا کوئی ذاتی فائدہ ثابت نہیں ہورہا،اس لیے اُس پر کرپشن کا مقدمہ نہیں بن سکتا تو بات ہی ختم ہو جائے گی۔ذاتی فائدہ کا ثبوت ڈھونڈنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔کرپشن صرف دو طرح سے ثابت کی جاسکتی ہے،ایک یہ کہ کسی کام میں قاعدہ ،قانون کی خلاف ورزی کی جائے، دوسراکسی سرکاری افسر یا حکومتی عہدہ رکھنے والے سیاستدان نے اتنے اثاثے بنالیے ہوں جو اسکی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر آپ یہ معیار ہی ختم کردیں گے تو پھر کسی کا احتساب کیسے ممکن رہے گا۔ گزشتہ حکومت کے نیب ترمیمی آرڈیننس کا حوالہ دیکر سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف احتساب عدالت سے کرپشن کے مقدمہ میںبری ہوگئے اور اب دیگر قانونی ترمیم سیاسی و نجی کاروبار کرنے والوں کو نیب کے دائرہ کار سے باہر نکالنے کا باعث بنیں گی۔
اعلٰی عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے احتسابی عمل کو بلا امتیاز شفاف بنانے کا راستہ دکھایا ہے ۔حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ باہمی مشاورت سے نیب قوانین میں ترامیم کے ذریعے انصاف کی عمل داری کو یقینی بنائیں ،مگر حکو مت اور اپوزیشن تو عدالتی فیصلوں کی آڑ میں اپنے مفادات کے حصول کا کھیل کھیلنے لگی ہیں۔اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور چیئر مین پیپلز پارٹی کندھے سے کندھا ملائینیب قوانین میں بہتری لانے کی بجائے نیب کے خاتمے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں،انہیں ملک وعوام کے مفاد سے کوئی غرض نہیں ،انہیں صرف خود کو بچانے اور اپنے بڑوں کو محفوظ بنانے سے ضرض ہے۔اس صورت حال میں عوام توقع رکھیں کہ نیب کو بے اختیار کرکے دیگر ادارے احتساب کرسکیں گے محض طفل تسلی ہے۔ ملک کے اند ایک نیب کا ادارہ رہ کرپٹ مافیا کی گردنوں کے گرد گھیرا تنگ کررہا تھا، اس کے اختیارات کو بھی ملی بھگت سے ختم کیا جارہا ہے،حالانکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اسے مزید مضبوط کیا جاتا، اس کی تفتیش اور مقدمہ لڑنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاتا،احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے سب نیب کے دانت نکالنے پر متفق نظر آتے ہیں۔
 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عرصہ دراز سے نیب کے قانون میں ترمیم اور احتساب سے جان چھڑانا پاکستان کے حکمران طبقہ کے غالب اکثریت کی خواہش رہی ہے۔اس میں اپوزیشن ہی نہیں ،بلکہ حکومت کے بھی ایسے لوگ شامل ہیں جو نیب کے پر کاٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں اشرافیہ کی غالب اکثریت سر سے پاؤں تک کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے دولت جمع کرنے میں نہ صرف جتی ہوئی ہے،بلکہ مالی بددیانتی کو اپنے لیے جائز بھی سمجھتی ہے۔ یہ لوگ کرپشن کو گناہ یا بُری بات نہیںسمجھتے ،بلکہ اپنا حق سمجھتے ہیں،اس لیے احتسابی عمل سے گزرنا معیوب تصور کرتے ہیں۔حکومت یا اپوزیشن احتساب کسی کے مفاد میں نہیں ہے ،ایسے حالات میں نیب کے قانون میں ترمیم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی، البتہ وزیراعظم عمران خان اس عمل کا حصہ بنیں گے تو انکی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان ہوگا۔ اس کے ساتھ سادہ عوام جو اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان کرپشن کے خاتمہ میں کوئی اہم کردار ادا کریں گے ،انہیں ایک بار پھر مایوس ہونا پڑے گا،کیو نکہ کرپشن کاسدباب فرد واحدکے بس کی بات نہیں ہے۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔