الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد تقریبا ایک سو چھبیس ہیں. ان میں بعض پارٹیاں خالص قومیت کے نعرے پر وجود میں آئی ہیں تو بعض خالص مذہب کے نام پر وجود میں آئی ہیں. بعض احتساب کے نام پر تو بعض انصاف کے نام پر اور بعض امن کے نام پر تو بعض ترقی کے نام پر معرض وجود میں آئی ہیں. اس طرح جو ووٹ دینے کے اھل افراد ہیں اور ان کا نام ووٹرلسٹوں میں درج ہیں ان کی تعداد دس کروڑ سے اوپر ہیں.ان میں 65 فی صد تعداد ان لوگوں کی ہیں جن عمریں اٹھارہ سے پینتالیس سال کے درمیان ہیں. اس مملکت پر اللّٰلہ کا خصوصی کرم ہے کہ یہاں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہیں جو کسی بھی معاشرہ کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. لیکن بدقسمتی سے میرے دیس کے نوجوانوں سے اس مملکت کی ترقی رکی ہوئی ہیں. وہ ہر نئے نعرے کے پیچھے ایسے بھاگ جاتے ہیں جس طرح گائے سبز چارے کے پیچھے بھاگتی ہیں. اس کی سب سے بڑی وجہ تحقیق کا فقدان ہے. اگر نوجوانوں میں تھوڑا بھی تحقیق کا مادہ ہوتا تو آج ہمارے یہ حالت نہیں ہوتے. اس سے ٹیلنٹ کی نفی نہیں ہورہی ورنہ جتنا ٹیلنٹ یہاں ہے شاید کے کئی ہو. اس عدم تحقیق کی وجہ نوجوانوں پر ہر وقت جذبات کا عنصر غالب رہتا ہے. وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آکر اپنے آپ اور ملت کا نقصان کر دیتے ہیں.دوسری بات جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ سیاسی شعور کا نہ ہونا ہے. ہم نے سیاست کی تعریف جھوٹ ،مکر فریب اور دھوکہ دھی سے کرتے ہیں اور جو جتنا کذاب، مکار اور فریب خودہ ہوتا ہے ہم ان کو اتنا بڑا ذہین سیاست دان اور لیڈر گردانتے ہیں حالانکہ سیاست کے بارے میں اسلامی تعلیمات اظہر من الشمس ہیں.ستم بالائے ستم بعض لوگ تو سیاست کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.تیسری بات سیاست کی آڑ میں اخلاقیات کا جنازہ نکالنا، مخالفین کو سب و شتم، ان کے خلاف غیر تحقیق باتیں بنانا اور ان کی پگڑیاں اچھالنے کو سیاست کا نام دیا گیا ہے حالانکہ یہ بدترین غیر اخلاقیاں ہیں.اگر ہمارے نوجوان ان چند اخلاقی، سماجی اور سیاسی برائیوں پر قابو پا لیں تو کوئی بھی ان کو ترقی سے نہیں روک سکتا۔