صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 26 اپریل 2024 

اسلام آباد ایئرپورٹ کسی بھی دن گرجائے گا، چیف جسٹس

ویب ڈیسک | جمعہ 10 جنوری 2020 

چیف جسٹس گلزار احمد نے ملک کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گر جائے گا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ایئرپورٹس پر فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کو سہولیات سے متعلق معاملے پر سماعت کی۔اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ سول ایوی ایشن کی طرف سے عدالت میں کون موجود ہے، جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ بتائیے گا کہ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں۔

اسی دوران چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، اس بارے میں کون ہے جو جواب دے گا، آپ کو کچھ معلوم نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فلائٹس تاخیر کا شکار ہوتی ہیں مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اتنی بات آپ کو سمجھ نہیں آرہی، آپ کیا ڈائریکٹر بنیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر کوئی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو مسافروں کو ٹھہرانے کی کوئی جگہ ہے، جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس حوالے سے متعلقہ ایئرلائن ذمہ دار ہوتی ہے۔

سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت کے ایئرپورٹ کے معاملے پر بھی ریمارکس سامنے آئے اور چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر جس طرح ہوئی ہے وہ کسی بھی دن گر جائے گا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حکومت دس دفعہ اس کی قیمت ادا کرچکی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ چرس اور کرنسی برآمد ہوتی ہے لیکن کوئی فوٹیج نہیں بنتی جبکہ کرنسی بھی دبا کر اسمگل ہورہی ہے، ایک کیس میں اے ایس ایف کے پاس فوٹیج تھی لیکن پیش نہیں کی جس پر ہم نے ملزم کو بری کردیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ایئرپورٹ ریکٹ ہے، دنیا بھر کا اسلحہ تک (یہاں) آتا ہے، پورے ملک کا مستقبل وہاں پر ہی طے ہورہا ہے۔

اس دوران عدالت نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سے پوچھا کہ آپ کو کتنا عرصہ ہوا ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ مجھے 20 سال ہوگئے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو سب معلوم ہوگا۔

جس پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ جہاں کارروائی ہوتی ہے اے ایس ایف کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ مسافروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے پہلے وہ بتائیں، آئے دن پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، اس پر آپ کیا کرتے ہیں۔

ہم آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں، چیف جسٹس کی ایڈیشل ڈی جی کو تنبیہ

علاوہ ازیں عدالت میں سماعت کے دوران ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن تنویر اشرف طلب کرنے پر پیش ہوئے۔

عدالت میں پیشی کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو عدالتی احکامات کا نہیں پتہ تھا؟ جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے جواب دیا کہ مجھے عدالتی احکامات کا صبح پتہ چلا ہے۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا کام عمل درآمد کرانا تھا 31 مارچ 2018 کا حکم موجود تھا، جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ ہم نے کافی اقدامات کرلیے ہیں۔

مذکورہ جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسائل تو اب بھی چل رہے ہیں، جس پر انہیں بتایا گیا کہ موسم کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں، آج بھی 3 پروازیں ملتان سے لاہور واپس بھیجی گئی ہیں۔

ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ دھند آلود (فوگی) سیزن کی وجہ سے فلائٹس تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فوگی سیزن بھول جائیں، فلائٹ ویسے بھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ویسے تو ریل اور بس بھی ہے لیکن لوگوں کا جہاز سے جانے کا مقصد وقت بچانا ہوتا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پرواز کی منسوخی کی ادائیگی کرتے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل ڈی جی نے جواب دیا کہ یہ کام ایئر لائن نے کرنا ہوتا ہے اور وہ مسافروں کو کرایہ واپس کرتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عملی طور پر کیا ہورہا ہے ہم وہ پوچھ رہے ہیں، اس پر ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ میرے پاس درست اعداد و شمار نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ صرف گدی گرم کرنے کے لیے بیٹھے ہیں، ہم آپ کو گھر بھی بھیج سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ حکم کردیں گے کہ عدالت میں سیکریٹری یہ ایم ڈی سے کم عہدے کا افسر پیش نہیں ہوگا کیونکہ عدالتی حکم کے باوجود آپ پیش نہیں ہوئے ہیں، اگر آپ کو عدالتی حکم کا نہیں پتہ تو کچھ نہیں پتہ۔

پروازوں میں تاخیر و معاوضے کی ادائیگی سے متعلق رپورٹ طلب

بعد ازاں عدالت نے گزشتہ ایک سال کے دوران فلائٹس کی تاخیر اور مسافروں کو معاوضے سے متعلق اعداد و شمار طلب کرلیے، ساتھ ہی عدالت نے تمام ایئرپورٹس کی مینٹیننس سے متعلق بھی رپورٹ 2 ہفتوں میں طلب کرلی۔

عدالت نے فلائٹ میں تاخیر اور منسوخ ہونے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی، ساتھ ہی کسٹم، اے ایس ایف و دیگر کو بھی اپنی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے حکم دیا کہ سول ایوی ایشن نے کتنے واقعات کے خلاف کارروائی کی رپورٹ دی جائے، گزشتہ ایک ماہ کی مکمل تفصیلات دی جائیں کہ اس حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے۔

جس کے بعد عدالت نے مزید سماعت کو 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔