صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

سوتے وقت کے آداب بزبان نبی آخرالزمانﷺ

مولانا رضوان اللّٰلہ پشاوری | جمعہ مارچ 2019 

اسلام ایک کامل دین ہے ۔ انسانی زندگی کے تمام مراحل میں اس نے رہنمائی فرمائی ہے ، یہاں تک کہ نیند کی حالت کو بھی فراموش نہیں کیا ، وہ نیند جس میں انسان تقریبا اپنی ایک تہائی زندگی گزار دیتاہے ، اسلام نے اس کے بہت سے آداب اور سنتیں ذکر فرمائی ہے ، جو شخص ان پر عمل کرے گا اسے سکون واطمینان کی نیند نصیب ہو گی پریشانی ،بے چینی اور بے خوابی سے نجات ملے گی۔
سورج کا غروب ہونا رات کی دلیل ہے ، رات ایک طرف تھکے ہارے کے لیے پرسکون نیند کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف اس میں شیاطین اور شریروں کی چلت پھرت تیز ہوجاتی ہے ۔رسول اللّٰلہ ﷺنے فرمایا : سورج غروب ہوتے وقت اپنے بچوں اور جانوروں کو باہر نہ چھوڑیں اس لیے کہ سورج غروب ہونے کے وقت سے عشاءکا اندھیرا چھانے تک شیطان گھومتے پھرتے ہیں(مسلم)
رات کی تاریکی میں بہت سی برائیاں اور مصائب رونما ہوتی ہیں ،اس لیے اللّٰلہ تعالی نے ہمیں رات کی تاریکی سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی :وَ مِن شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ(سورة فلق) ”اور (میں صبح کے رب کی پناہ مانگتاہوں ) تاریک رات کے شر سے جب اس کی تاریکی پھیل جائے “ ۔
نیند زندگی کی ایک اہم ترین ضرورت ہے ،اللّٰلہ کی ایک نشانی ہے اور ایک بڑی نعمت ہے ،اللّٰلہ نے اپنے بندوں پر اس نعمت کااحسان جتلاتے ہوئے فرمایا:”رات اور دن میں تمہارا نیند کرنا اور تمہارا اس کا فضل ( یعنی روزی ) تلاش کرنا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے ، جو لوگ (کان لگاکر) سننے کے عادی ہیں ان کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں“ (سورة الروم) 
٭ جلدسے جلد سونا اور بغیر ضرورت کے جاگنے سے پرہیز کرنا:
ابوبرزة اسلمی ؓ سے روایت ہے کہ:رسول اللّٰلہ ﷺ عشاءسے قبل سونے کواور عشاءکے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۔ ( بخاری، مسلم)
٭ سونے سے پہلے ہاتھ اور منہ میں گوشت یا چربی وغیرہ کا اثر یا مہک ہو تو اس کو دھو لینا چاہیے :
رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا : جس کے ہاتھ میں (گوشت یا چربی کی ) مہک یا اس کااثر موجود ہواور اسے دھوئے بغیر سوگیا ، پھر اسے کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرے ( ترمذی،احمد، ابوداو )
٭ سونے سے قبل وضو کرنا :
براءبن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰلہﷺنے فرمایا:جب تم اپنے بستر پر آو تو وضو کرلو جیسے نمازکے لیے وضو کیا جاتاہے (بخاری مسلم) مقصود یہ ہے کہ سوتے وقت باوضو رہنا سنت ہے ۔
 باوضو سونے سے انسان ڈراونے خواب اور شیطان کے کھلواڑ سے محفوظ رہے گا۔ اگر اس رات اس کی موت ہوجائے تو طہارت کی حالت میں موت ہوگی، اگرکوئی اچھا خواب دیکھے تو وہ سچا ہوسکتاہے ۔(شرح مسلم النووی )
٭ سونے سے پہلے وتر پڑھنا :
 جو شخص رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہوسکے تو ابتدائی رات میں وتر پڑھ لے (مسلم )رسول اللّٰلہ ﷺ نے ابوہریرہؓ کو سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی وصیت فرمائی( بخاری ، مسلم)
٭ سونے سے پہلے بسم اللّٰلہ کہہ کر دروازے بندکر دیں : 
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا : دروازے بند کرو اور (انہیں بند کرتے وقت) بسم اللّٰلہ کہو ، اس لیے کہ شیطان بند دروازے کو نہیں کھولتا(بخاری ،مسلم)ایسا کرنے سے شیطان سے دوری اور اس سے بچاو کا ذریعہ بھی ہے اور جان ومال کی حفاظت بھی ہے ۔
٭سونے سے قبل کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپنا چاہئے:
 سونے سے قبل کھانے پینے کے برتنوں کوبسم اللّٰلہ کہہ کر ڈھانک دیں ، اگر کوئی چیز نہ ملے تو کم سے کم ایک لکڑی ہی سہی بسم اللّٰلہ کہہ کر ان پررکھ دیں، اس لیے کہ شیطان بنددروازوں کو اور ڈھکے ہوئے برتنوں کو نہیں کھولتا(مسلم)
ایک حدیث میں آپ ﷺنے اس کا سبب یہ بیان فرمایاہے کہ :سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں وبااور بلانازل ہوتی ہے ، اور جس چیز کا منہ بند نہ ہو اور جوبرتن ڈھکا ہوا نہ ہو اس میں یہ وبا اتر پڑتی ہے (مسلم)
٭ سونے سے قبل بسم اللّٰلہ کہہ کر تین بار بستر کو اچھی طرح جھاڑ لینا چاہیے :
جو اپنے بستر سے اٹھ جائے پھر دوبارہ سونے کے لیے آئے تودوبار اس کو جھاڑلے ، کیونکہ معلوم نہیں کہ اس کے جانے کے بعد وہاں کیا کچھ آیا ہے (بخاری،مسلم)
٭ سونے سے پہلے آگ اورچراغ بجھادیں:
جابر بن عبداللّٰلہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا :رات میں جب تم سونے جاو تو چراغ بجھا دو اور دروازے بند کردو(بخاری، مسلم)
 حضرت عبداللّٰلہ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ کو جلتے ہوئے نہ چھوڑو(بخاری،مسلم) ایک اورروایت میں ہے کہ چراغ بجھادو کیونکہ بسااوقات چوہا چراغ کی بتی کو بھڑکا کر گھروالوں کو جلاڈالتاہے (بخاری )
مسئلہ : آگ یا چراغ جلائے رکھنے کی ضرورت پڑے تو اس سے محفوظ رہنے اور اس کے نہ بھڑکنے کے اسباب اختیار کرلیے جائیں تو پھر اسے بجھائے بغیر سونا جائز ہے اس لیے کہ حدیث میں جو سبب ذکر کیا گیا ہے اگر وہ ختم ہوجائے تو منع کا حکم بھی ختم ہوجاتاہے ۔ (شرح مسلم نووی)
 امام قرطبیؒ فرماتے ہیں : آگ بجھادے یا پھر ایسے طریقے اپنا یے کہ وہ بھڑک نہ سکے (فتح الباری) 
٭ دائیں کروٹ لیٹیں اور اپنے داہنے ہاتھ کواپنے گال کے نیچے رکھ لے :
رسول اللّٰلہ ﷺ نے حضرت براءبن عازبؓ کو سیدھی کروٹ سونے کے لیے کہا(بخاری)
 حضرت حفصہ رضی اللّٰلہ عنہا اور دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ :رسول اللّٰلہ ﷺ جب اپنے بستر پر سوتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھ لیتے تھے (احمد )
٭ پیٹ کے بل سونا منع ہے :
ایسا سونے سے اللّٰلہ تعالی غصہ ہوتاہے اوراس کو ناپسند کرتاہے اس لیے کہ یہ دوزخیوں کا طریقہ ہے : اللّٰلہ تعالی کا فرمان ہے :یَو±مَ یُس±حَبُونَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِم± ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ( سورة القمر )ترجمہ: جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا)دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو ۔
 رسول اکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا:اِنَّ ھٰذِہِ ضِج±عَةµ یُب±غِضُھَا اللّٰہُ تَعَالٰی یَع±نِی ال±اَض±طِجَاعُ عَلَی ال±بَطَنِ(صحیح الجامع الصغیر)ترجمہ :یقینا اس طرح لیٹنے کو اللّٰلہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے یعنی پیٹ کے بل (اوندھا)لیٹنا۔(الاضطجاع علی البطن: یعنی ایسے سونا کہ پیٹ زمین کی طرف اور پشت اوپر کی طرف ہو)(صحیح سنن الترمذی)
ابوذر رضی اللّٰلہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا،تو آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا:جُنیدب ! ( یہ ابوذر کا نام ہے ) سونے کا یہ انداز توجہنمیوں کا ہے (ابوداو¿د)
٭ چت لیٹ کر ایک پیر کو دوسرے پیر کے گھٹنے پر رکھ کر سونا مکروہ ہے اس لیے کہ اس میں ستر کھلنے کا امکان ہے :
جابر بن عبداللّٰلہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰلہ ﷺنے منع فرمایا ہے کہ آدمی ایک پیر کو دوسرے پر اٹھاکر رکھ لے جبکہ وہ چت لیٹا ہواہو( مسلم )
اگر ستر کھلنے کا امکان نہ ہوتو ایساسونے میں کوئی حرج نہیں ہے ؛ اس لیے کہ عبداللّٰلہ بن زید بن عاصم مازنی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰلہ ﷺ کو مسجد میں ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھ کر لیٹے ہوئے دیکھا (بخاری ، مسلم )
٭ ایسی چھت پر سونا منع ہے جس کے اطراف کوئی آڑ نہ ہو جو گرنے پڑنے سے روک سکے :
 رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسی چھت پر سوئے جس کے اطراف کوئی آڑ( کھمبی) نہ ہو (اوروہ اوپر سے گرکر مرجائے یا اسے کوئی نقصان پہنچے) تو وہ اللّٰلہ کی ذمہ داری سے بری ہے( احمد،ابوداو د )یعنی گویا اس نے خود کشی کرلی ۔ اور اگر حفاظت کے ذرائع اپنانے کے بعد بھی وہ ہلاک ہوگیاتو ان شاءاللّٰلہ وہ شہید کہلائے گا۔
٭ بچے اگر دس سال کے ہوجائیں تو ان کو الگ الگ بستروں میں سلانا چاہیے: 
رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا :جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر ماریں ، اور ان کے بستروں کو الگ کردیں جب دس سال کے ہوجائےں(احمد، ابوداود )
انچارج روزنامہ دینی ایڈیشن ”اکثریت “ 

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔