صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

قصور وار کون ذرا نہیں پورا سوچئے!

حافظ عمیرحنفی | جمعرات 23 جنوری 2020 

 

لفظ ِ ”انسانیت“ بظاہر سات حروف کا مجموعہ ہے مگر سفاکیت، بے دردی، بے حسی، رتبہ وعہدہ کا نشہ، جمال و مال کی ریل پیل، حسب ونسب کا گھمنڈ اور تکبر کہ تہہ جب دماغ پر جم جاتی ہے، تو اس لفظ ِ انسانیت کو خارج کردیتی ہے، اور پھر وہ انسان زندہ ہوکر بھی درندہ ہوجاتا ہے، پھر وہ شخص انسانیت سے کوسوں سے دور چلا جاتا ہے، پھر اسے غریب لوگ زمین پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں، پھر وہ دنیا کی دھن میں ایسا مست ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کو بھی بھول چکا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی عطا ہے

خیر:”لفظوں کا ڈھیرایسے لگانے سے کیا ہوتا ہے؟”اک لفظ ِ انساں ہی کافی ہے ضمیر جگانے کےلئے

اب عبادات کرنے کے بعد تمنا لگائے بیٹھا ہو ان کی مقبولیت کی اور ساتھ کا پڑوسی بھوکا ہے کبھی نہیں ہوگا، تمنا و جستجو ہے جنت جانے کی ساتھ پڑوس جانے کی اہلیت نہیں تو ناممکن سمجھو! خواہش ہے حوض کوثر کی اور مسلم سے بے خبر ہے تو خواب ہی سمجھو، سوچتا ہے کہ بخشا ہی جاو


¿نگا لیکن پھر ضمیر بھی جھنجوڑتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ میرا انسانیت سے ناطہ و واسطہ تک نہیں…

 

گزشتہ پانچ برس میں صوبہ سندھ میں 1300 افراد نے خودکشی کرلی، ایک سال میں 600 سے اوپر واقعات درج کیے گئے، چند روز قبل میرمحسن بچوں کی گرم کپڑے لانے کی خواہش پوری نہ کرسکا اور خود سوزی کرلی خود سوزی سے قبل وزیر اعظم کے نام خط چھوڑا ”روزی سے تنگ ہوں اس لیے خود سوزی کررہا ہوں“ یہ وہ خبریں جو روزانہ ہر نیوز میں سننے کو ملتی ہیں کیا واقعتاً ہم اتنی سطح سے بھی نیچے گرچکے ہیں؟ صرف ہم لوگ خودکشی نہ کرنے کے بارے میں احادیث سناتے اور حکومتی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کےلیے اس کا دفاع ہی کرتے رہیں گے؟

 کیا ہم ان چکروں میں رہیں گے کہ مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم العالیہ کی کون سی بات پر تنقید کی جاسکتی ہے کہ وہ تلاش کریں یا مولویت کو بدنام کرنے کی کون سی سازش کامیاب رہ سکتی ہے؟

ہم سوچتے ہیں کہ کسی بھی مولوی، مذہبی تنظیم، سیاسی جماعت، یا کسی ادارہ کو نگاہ میں رکھا جائے تاکہ بروقت چھوٹی سی غلطی پر عزت نفس کو اچھالا جائے یہ کم ظرفوں والی سوچ ہے، حالانکہ کام کرنے والے لوگ ان چیزوں سے کوسوں دور ہوتے ہیں، ان کو بحث مباحثے اور مجادلے سے سخت نفرت رہتی ہے، وہ ہر وقت کسی کی ٹھوہ میں نہیں رہتے۔۔۔

 پھر قصور وار کون ہیں؟اور ہمارے کرنے کے کیا کام ہیں؟

ہمیشہ ایسے معاملات میں اور ایسی جگہوں پر قصور وار اور کوئے نہیں کچھ ہم بھی اور اس ملک و علاقہ کا ظالم حاکم ہوتا ہے، جو غریب کی پراوہ کیے بغیر اپنی پونجی بنانے میں مست ہوتا ہے، وہ جو قارون کی طرح مال جمع کرنے کے چکر میں ہوتا ہے اور وہ جو فرعون کی طرح کرسی کے نشہ میں دھت ہوتا ہے، تف اور افسوس ہے اس ظالم درندہ صفت انسان پر جس کو لوگ مرتے دکھا? نہیں دیتے مگر اپنی سات نسلوں کےلئے جمع کرنا دکھائے دیتا ہے۔

دوسرا ہم ہیں کہ اپنی نفس کی غلامی اور من مرضی کی زندگی میں مست ہیں، جب لوگ زکوٰة پوری ادا کرنے لگ جائیں غریب و لاچار کی فکر لاحق ہو تو دعویٰ سے کہ سکتا ہوں ملک پاکستان میں کوئیمستحق زکوٰة نظر نہ آئے کوئی گھر غریب نہ ہو، مفلسی ختم ہوجائےمگر یہ باتیں شاید کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں کیونکہ جوانی یا پیسے کا نشہ سوار ہوتا ہے اگر آج آپ اور میں ہی سوچ لیں کہ وہ تھر والے، میرے گھر والے ہیں اور وہ غریب میرا بھاو


¿ ہے اور پھر کفالت بھی کریں تو سب معاملات درست ہوسکتے ہیں لیکن شاید برسوں میں جاکر بھی یہ ممکن نہ ہو....

 

پھر تخیل و تصور بندھ جاتا ہے کہ حساب و کتاب تو حاکم ِ وقت سے ہوگا، جی بالکل اس کے گلہ میں تو پھندا ہوگا ہی لیکن پوچھ گچھ آپ سے بھی ہوگی آپ اہل محلہ تھے آپ روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے سڑکوں پر اس کو تڑپتا دیکھتے تھے، آپ روز اسی راستہ سے اس کو اگنور کرکے گزرتے تھے، تو مجرم آپ اور میں برابر کے ہی ہونگے، آج جب وہ ٹھٹھرتی جان سردی کی اس شدت میں رات کے آخری پہر رب ِ کائنات سے سوال کرتی ہوگی تو کیا آپ کے بچوں کا مستقبل بہترین ہوگا؟ آپ باہر نکلتے ہیں اتنا مال جو روزانہ کی بنیاد پر ضائع کرتے ہیں کوشش کریں کسی غریب تک پہنچا کر چلو اور نہیں عقبیٰ تو بنا ہی لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔