صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 29 مارچ 2024 

گھبرائی عوام کو نہ گھبرانے کے دلاسے !

شاہد ندیم احمد | جمعرات 23 جنوری 2020 

ہماری حکومت ایک سے بڑھ کر ایک بحران پیدا کرنے میں ماہر ہو چکی ہے، حکومت کی بے تدبیری کی وجہ سے ملک میں گندم کا بحران ختم نہیں ہوا تھا کہ چینی بحران سراُٹھا نے لگاہے۔اس بحرانی صور ت حال سے نکلنے کےلئے حکومت کی غیرسنجیدگی تعجب خیزہے کہ حکومتی وزراءبحرانوں کا ذمہ دارعوام ہی کو ٹہرارہے ہیں،جبکہ ملک میں بے قابو مہنگائی اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ خود وزیر اعظم بھی اپنی تنخواہ سے گھر نہ چلنے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے قولی اعتراف کےساتھ نچلے طبقات کےلئے کچھ آسانیوں کی غرض سے 74چھوٹے کاروباروں سے لائسنس ختم کرنے کی ہدایت کی ہے، کریانہ فروش، کپڑا فروخت کرنے والے، کلچہ شاپ جیسے کاروبار لائسنس سے آزاد کیے جا رہے ہیں۔عوام دوست فیصلوں کے اس تسلسل میں گیس سرچارج ختم کر کے یوریا کی بوری میں 400روپے کمی کا اقدام بھی شامل ہے جس سے یقیناعام عوام کے سا تھ کاشت کاروں کو بھی سکھ کا سانس آئے گا۔ حکومت کے چھوٹے دکانداروں اور کاروبار پر غیر ضروری ٹیکس ختم کرنے کےساتھ دیگرعوامی فیصلے بہتر قدم ہے، یہ دائرہ کار وسیع کیا جانا چاہئے، اگرعوام کو رلیف اورکاروباری حضرات کو مراعات دی جائیں گی تو اقتصادی سرگرمیاں بڑھنے سے پاکستان جلد اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جائے گا۔

 یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار میں بڑھتی مہنگائی محروم طبقات کے مسائل میں اضافے کا باعث رہی ہے۔ حکومت پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) یا پھر تحریک انصاف کی ہو،حکومتی انتظامیہ کے فیصلوں کا بوجھ آخر کار کم آمدنی والے افرادکی گردن پر آن پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی کے عوامی واویلے پر کہتی رہی ہے کہ بین الاقوامی قرض خواہووں سے بھاری شرائط پر قرضوں کی واپسی کے باعث تاحال غریب افراد کےلئے آسودگی کے منصوبے شروع نہیں کر پارہی ہے۔ ٹیکس دینے سے لوگ کتراتے ہیں لہٰذا حکومت کے پاس جس قدر مالی وسائل ہیں ان کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر اٹھ جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح مہنگائی کے پس پردہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا کردار موجود رہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ کسی جنس، زمین یا پیداوار کی بڑے پیمانے پر خریداری کر لیتے ہیں۔ حکومت کے گوداموں میں جب پیداوار یا جنس ختم ہو جاتی ہے تو یہ اپنا ذخیرہ من چاہے نرخوں پر مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بے حسی اس درجے کو پہنچ گئی ہے کہ بابرکت مہینہ میں بھی سبزیاں، پھل،گھی، چینی، گوشت، بیسن اور دیگر ضروری اشیا مہنگی ہونے لگتی ہیں۔

 عوام سابق حکومتوں کی کرپشن کے متعلق سننے پردعا کرتے تھے کہ انہیں دیانتدار حکومت ملے۔ عمران خان کی ذات پر تاحال عوام کا بھروسہ ختم نہیں ہوا مگر حکومت میں شامل کئی شخصیات نے اپنا بھرم کھو دیا ہے۔ حکومت کے بنیادی افعال اور ذمہ داریوں کے بارے میں عمران خان خود اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جب کسی معقول وجہ کے بغیر ملک میں اشیائے ضروریہ مہنگی ہونا شروع ہو جائیں تو سمجھو کوئی با اختیار شخصیت یا گروہ بحران پیدا کر کے اس میں سے اپنے لیے مالی فوائد کشید کرنا چاہتا ہے۔ اگر تحریک انصاف حکومت میں ایسا کوئی نہیں جو عوامی آرزوﺅں اور تبدیلی کے پھولوں کا خون کر رہا ہو تو پھر مہنگائی کے اس بھیانک عمل کو انتظامی صلاحیت کی کمی، غفلت یا نا اہلی کہا جا سکتا ہے۔ یہ عمل باعث تعجب ہے کہ حکومت اصلاح احوال کےلئے جو تدابیر اختیار کرتی ہے کچھ دن بعد وہ زائل ہو کر معاملے کو مزید سنگین بنا دیتی ہیں۔ملک میں معاشی بحران کےساتھ سیاسی بحران بھی سنبھل نہیں پارہا ہے ، اپوزیشن انتقامی کاروایوںکارونہ رورہی ہے تو اتحادی جماعتیںوعدہ خلافی پر نالاں ہے ۔ملک کا بڑا صوبہ پنجاب بد ا نتظامی کا شکار نظرآتا ہے ،ا پنے اورغیر وزیر اعلیٰ پنجاب کی ناقص کارکردگی کا رونہ رو تے تھک چکے ،مگر عمران خان ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں۔پارٹی کے اندر روز بروز مضبوط ہوتی دھڑے بندی حکومتی گرفت کو کمزور کر رہی ہے، ان حالات میں مخالفین کاکسی بھی معاملہ کو بحران کی شکل دینا مشکل نہیںہے، یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد ایک سیاسی و معاشی بحران حکومت کےلئے درد سر بن رہا ہے ۔

اس وقت ملک میں سیاسی و معاشی بحران اور غیر یقینی کی کیفیت ہے ،نیب کی کارروائیوں نے سیاست دانوں کو تو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، لیکن اس کےساتھ ملک کے صنعتکاروں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔حکومت نیب آئینی ترمیم کے ذریعے بیوروکریٹ اور کاروباری حلقے کو اعتماد دلانے کی کوشش کررہی ہے ،لیکن ابھی تک نتا ئج حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ ملک کی صنعت میں بیرونی سرمایہ کاری تو جب آئے گی تب معلوم ہو گا ،لیکن ہمارے اندرونی سرمایہ کاروں نے اپنا ہاتھ روک لیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنعتکارونے تحریری خاموش اجتماعی معا ہدہ کر لیا ہے کہ وہ صنعت سازی سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔ ایسے حالات میں ہمیں ایسے حکمران درکار ہیں جو اس گھبرائی ہوئی قوم کو گھبرانا نہیں کے وعظ سے نکل کر قوم میں اپنے بہتر اقدامات سے سکون پیدا کریں اور اس اعتماد کو واپس لائیں جو قوم نے کھو دیا ہے ۔قوم کو ایسے لطیفے نہ سنائیں کہ بیرونی سرمایہ کاری شروع ہو گئی ہے ،آئندہ سال خوشحالی کا سال ہو گا ،کیو نکہ ملک میں جب تک خود سرمایہ کاری نہیں ہوگی کوئی باہر کا کیسے سرمایہ کاری کرے گا،جبکہ یہاں تو اپنے لوگ عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں، اس لیے حکومت کوکچھ نہیں تو دکھوں کی ستائی اور مصیبتوں کی ماری قوم کو کم ازکم آٹے، چینی کا سکھ دینے کی فوری کوشش کرنی چاہئے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ عوام مہنگائی کے باعث دو آپشن پیش نظر رکھے ہوئے ہیں، بچوں کےلئے رزق یا پھر زندگی سے بیزاری، خود کشی شوق نہیں، معاشرتی جبر، افلاس اور بے بسی کی ناقابل بیان حکومتی لاتعلقی کی کہانی ہے جسے جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ کہا جائے گا۔ جمہوریت عوام کو تحفظ کے احساس سے سرشار کرتی ہے ،مگر اس جمہوریت میں جمہور خود کو بے یارومددگار سمجھنے لگا ہے ۔تحریک انصاف حکومت کو عوام کی وابستہ اُمیدوں کو مایوسی میں بدلنے کی بجائے سیاسی و معاشی امنگوں کی ترجمانی کرنی چاہیے،چھوٹے ،بڑے تاجربرادری کے اعتماد کو بحال کرنے کے عملی اقدام کےساتھ عوام کو فوری رلیف دینے کی اشد ضرورت ہے ۔عوام چاروں طرف سے مہنگائی، افلاس اور بیروزگاری کے حصار میں ہے،اسے مذید معاشی بحرانوں کے نظر نہ کریں ، اس وقت لازم ہے کہ حکومت انتظامی، اقتصادی اور سماجی رکاوٹوں کو ہٹانے کےلئے تاجروں سمیت دیگر طبقائے فکر کےساتھ مشاورت سے درپیش مسائل کا اجتماعی حل تلاش کرے، تاکہ ملک معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔اگر حکومت نے عوامی اضطراب کی جانب توجہ نہ دی تو عوام اپنے لئے مشکل بننے والے 2020ءکو حکمرانوں کیلئے بھی مشکل بناسکتے ہیں۔ حکومت کو بہرحال عوامی مسائل کا احساس کرنا ہو گا اور انکے مسا ئل کے تدارک کی جامع پالیسی طے کرکے اس پر عملدرآمد کا آغاز کرنا ہو گا،پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ،مذید دیری حکومت مخا لف تحریک کا باعث بن سکتی ہے ،آج ملک کو سلامتی کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی سنگین خطرات کا سامنا ہے تو ان سے عہدہ برا


¿ہونے کیلئے عوام کو مطمئن رکھنا بہت ضروری ہے ، اس وقت گھبرائی ہوئی عوام کو نہ گھبرانے کے دلاسوں سے مذیدبہلایا نہیں جاسکتا،عوام کوروزمرہ کے گوناں گوں مسائل میں ریلیف فراہم کرکے ہی مطمئن کیا جاسکتا ہے۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔