صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 29 مارچ 2024 

تبدیلی کسے راس آئی ہے ؟

شاہدمشتاق۔سمبڑیال | پیر 20 جنوری 2020 

الیکشن سے پہلے میرے جیسے لاکھوں لوگ خان کو ووٹ ڈالتے ہوئے بڑے پرامید اور خوش تھے کہ سات عشروں سے ہم جس نجات دہندہ کا خواب دیکھ رہےتھے وہ آگیا ہے ، اب ہماری ساری پریشانیاں اور تکلیفیں صرف نوے دن میں ختم ہوجائیں گی اور ہم لوگ دنیا میں ایک غیرت مند اور خود دار قوم بن کر ابھریں گے ،کیا عرب اور کیا یورپی ممالک سب کے ائرپورٹس پہ ہماری تضحیک ہونا بند ہوجائے گی اب کوئی ہمیں سیکیورٹی کے نام پر ذلیل و خوار نہیں کرسکےگا ، عرب ممالک میں ہمارے مزدور بھائیوں کےساتھ اب غلامانہ سلوک ہونا ہمیشہ کےلئے بند ہوجائےگا۔

لوٹا ہوا پیسہ واپس لایاجائےگا،ہر طرف کاروبار اور وسائل کی بہار ہوگی، مہنگائی ، کرپشن ، اور ناانصافی سب جڑ سے اکھاڑ دئیے جائیں گے ، اور چونکہ ہر شخص بخوبی جانتا تھا کہ خان کی پشت پہ اپنے مہربان ڈنڈے اور وردی والوں کا شفقت بھرا ہاتھ ہے تویقینی بات ہے کہ اب بھارت کو بھی منہ توڑ جواب دیا جائےگا اور ملک میں بھی ہر طرف امن وامان کی فضا ہوگی۔

یہ وہ خواب تھے جو ہر پاکستانی نے قریب ڈیڑھ سال پہلے جاگتی آنکھوں سے دیکھے تھے اوراب جب آنکھ کھلی ہے تو حقیقت کے ڈراونے سانپ سے ہر کس و ناکس سہما بیٹھا ہے۔

اب جب کبھی میں "تبدیلی آئی ہے" کا نغمہ کسی بچے کے منہ سے سنتا ہوں( کہ بڑے تو اب اس نعرے سے توبہ کرچکے ہیں ) تو سوچتا ہوں کیا واقعی تبدیلی آئی ہے ؟ کیا تبدیلی کا خواب دکھانے والے سچے تھے ؟ آخر کیسے کوئی عقل مند شخص ایسے وزیروں مشیروں کے ہوتے ہوئے کوئی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے ؟۔

مہنگائی نے اعوام کا جینا دوبھر کردیاہے لوگ ضروریات زندگی پورا کرنے سے قاصر ہیں،عام آدمی کے نالے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، کس کس بات پہ روئیں اور کس کس کا ماتم کریں، مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں اب یہ بھی یاد نہیں رہتا کس ظلم پہ احتجاج کریں، ہر جھٹکے کے بعد آنے والے اگلے جھٹکے کا خوف طاری ہوجاتاہے۔

حالیہ آٹے کے بحران اور اس پہ حکومتی وزیروں کے مسخرے پن نے میرے جیسے اعتدال پسند آدمی کوبھی یہ سوچنے پہ مجبور کردیا کہ کیا اس تبدیلی سے کہیں بہتر زرداری اور مشرف کا دورنہیں تھا ؟۔ نوازشریف مودی کا یارتھا یاایسا چور جس نے سب کچھ مغربی بینکوں میں منتقل کردیا یہ بات اب کم ازکم کوئی باہوش پاکستانی سننے کےلئے تیار نہیں،میں کبھی ن لیگ کا حامی نہیں رہا لیکن نواز دار حکومت آج کی حکومت سے کہیں بہتر تھا ، ہر چیز حکومتی دسترس میں تھی کاروبار کے مواقع پیدا ہورہے تھے ، مہنگائی قابو میں تھی، پیٹرول،گیس، بجلی ،پانی کی قیمتیں آسمان پہ نہیں اڑ رہی تھیں ، مایوسی کم ہورہی تھی لوگ خوشحال ہورہے تھے۔

آج سوائے ایک مخصوص ٹولے کے ہر شخص فکرمند ہے، اعوام غیض و غضب سے بھر رہے ہیں۔ لوگ اگر سڑکوں پہ نہیں نکل رہے تو اس کی وجہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی اور اپنے اداروں کا احترام ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ خان اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ ساری اپوزیشن بھی اعوام کو اس ظالم حکومت کے رحم وکرم پہ چھوڑ چکی ہے اور اگلے دو ڈھائی سال مزید یہ خاموشی ٹوٹتی نظر نہیں آتی۔

میرے جیسے ایک عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ملک پہ ایک جرنیل حکومت کرے یا کوئی بلڈی سویلین ، یہ سارے چونچلے حرام کے مال سے بھرے پیٹوں کی کارستانیاں ہیں۔

ایک عام آدمی صرف روزگار ، وسائل اور مالی پریشانیوں سے چھٹکارا چاہتا ہے ، اس کےلئے بنیادی ضروریات زندگی اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت ہی سب سے اہم مسلہ ہے۔

آج بھی خان صاحب کے اخلاص بھی کوئی شبہ نہیں لیکن ظالموں کے ایسے بے حس ٹولے کےساتھ وہ کیا کرسکتے ہیں جو نا صرف ہمیں زخم دیتے ہیں بلکہ اپنے لفظوں کے نشتر سے ہمارے زخموں کو کریدتے بھی ہیں۔

خان صاحب ایک انقلابی شخصیت تھےجو جاہلوں اور نااہلوں میں گھر چکی ہے اب اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہیں تو یہ لوگ کرنے نہیں دینگے اس لیے پہلی فرصت میں ان غیرذمہ دار وزیروں مشیروں سے جان چھڑانا اور مخلص لوگوں کو آگے لانا بہت ضروری ہے بصورت دیگر ہم یہی سوچیں گے کہ خان صاحب صرف باتوں اور دعووں سے دل بہلاتے ہیں اور دل بہلانے والے مسخروں کی ہمارے ملک میں کبھی کمی نہیں رہی۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔