صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 19 اپریل 2024 

پڑھے لکھے جاہل

خان فہد خان | ہفتہ 14 دسمبر 2019 

 

©گزشتہ روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور پر وکلاءکی جانب سے پرتشددحملے کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ اس حملے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور افراتفری کی صورت حال پیدا ہونے کی وجہ سے کئی مریض جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔اس سارے واقعے کی اصل وجہ گزشتہ ماہ اسی ہسپتال میں ہونے والی چند وکلاءاور ڈاکٹرز کی لڑائی تھی جس میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی جانب سے نہتے وکلاءکو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس لڑائی کے بعد وکلاءنے ایف آئی آربھی درج کروائی اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر کئی احتجاج بھی کیے لیکن چند دن ڈاکٹرز کی جانب سے غیر مشروط معافی سے ان دونوں فریقین میںصلح ہوگئی تھی جس سے یہ مسئلہ بظاہر ختم ہوگیا تھا مگر صلح کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جس میں ایک ڈاکٹرکچھ پیرامیڈیکل اسٹاف کے درمیان کھڑا ہوکر وکلاءکی تضحیک کرتے ہوئے اپنی بہادری کے قصے سنا رہا تھا اور باقی اسٹاف بہت خوش ہورہا تھا۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی اور متاثرہ وکلاءتک پہنچی جس سے وکلاءمیں مسلسل اشتعال بڑھ رہاتھا۔ حملہ سے ایک دن پہلے بار کے الیکشن کمپین کی میٹنگ میں وکلاءنے اپنی طاقت دیکھانے اور ڈاکٹرکو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جانے کا فیصلہ کیااور پھر پلان کے مطابق اگلے دن وکلاءہسپتال پہنچے۔ہسپتال کے باہر ایف آئی آر میں نامزد ڈاکٹر کی گرفتاری کیلئے احتجاج شروع کیا اسی دوران کچھ وکلاءگیٹ پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو دھکا دے کر ہسپتال میں ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے شیر شکار پر۔ہسپتال میں داخل ہوتے ہی دروازے کھڑکیوں، گملوںکی توڑ پھوڑ شروع کردی اورجو ڈاکٹریاپیرامیڈیکل اسٹاف نظر آیا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔وکلاءنے مریضوں کو بھی نہیں بخشاانکے بھی وینٹی لیٹر ہٹا دیے ۔جب لڑائی ڈاکٹرز کے ساتھ تھی اس میں موجود مریضوں کا کیا قصور تھا ان کے ماسک بھی اتارے اور آپریشن رکوا کر انہیں موت کی وادی میںدھکیلنے کی سرمناک کوشش کی گئی۔ بھلا ان مریضوںنے وکلاءکی شان میں کوئی گستاخی کی تھی ۔اپنی بہادری اور اتحاد کا اظہار کرنے کیلئے صرف ہسپتال کے مجبور اور لاچار مریض ملے تھے جن کو پہلے ہی دُکھوں اور تکالیف نے زندگی سے بیزار کیا ہوا ہے۔ وکلاءنے اپنے اتحاد اور بہادری کا اظہار صرف ہسپتال کی املاک اور مریضوں پر ہی نہیں کیا بلکہ انکے لواحقین، راہگیروں ،میڈیا نمائندگان پر تشدد کرکے بھی کیا ۔معاشرے کے ایسے طبقے سے اس طرح کے فعل کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے جو کیا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ شاید پہلی بار ہی ہواہے۔اس طرح کا کام کرتے ہوئے حیوانیت بھی شرماجائے جسے وکلاءنے بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ کیا ۔انہوں نے اس ساری توڑ پھوڑ کے بعد اپنی جیت کا جشن بھی منایا اور ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے وکلاءزندہ ہیں وکلاءزندہ ہیں کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے لیکن درحقیقت صرف وکلاءہی زندہ تھے مگر ان کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے ۔نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسان جذبات اور اشتعال میں بہت کچھ کر گزرتا ہے لیکن بعد میں اس کو اپنے کیے پر ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے لیکن ان وکلاءنے تو ڈھٹائی کی انتہا ہی کردی ایک ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کی جس کی کوئی مثال نہیں اور بعد میں ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹرز کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بار کے صدر اس واقعہ کی مذمت کرتے اورایسے ظالموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ جنہوںقانون شکنی کی ۔مگر بدقسمتی سے اس دن سے آج تک کثرت سے وکلاءاس بدمعاشی اور دہشت گردی کو ڈیفینڈ کرتے ہوئے وضاحتیں اور دلائل دے رہے ہیں اورملک بھر کے کئی شہروں میں وکلاءنے اپنی کمیونٹی کے حق میں احتجاج بھی کیا۔جس سے احساس ہوتا ہے کہ اس شدت پسندانہ سوچ کے حامل افراد صرف دو چار ہی نہیں ہزاروں میں موجود ہیںجو ان ظالم وکلاءکے ہم خیال ہیں ۔یہ افسوس ناک امر ہے کہ وکلاءمعاشرے کا ایک پڑھا لکھا اور سمجھدارطبقہ ہونے کے باوجود ظالموں کے ساتھ ہے یہ وقت اپنی کمیونٹی کو سپورٹ کرنے کا نہیں بلکہ اپنے اندر موجود ظالموں کو علیحدہ کرنے کا ہے۔یاد رہے اس سارے واقعہ میں صرف وکلاءہی قصور وار نہیں اس جرم میں وہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی شامل ہے جنہوں نے پہل کرتے ہوئے علاج معالجہ کی غرض سے آئے نہتے وکلاءپر تشدد کیا اور ان کا بعد میں تمسخر اُڑایاجس سے وکلاءمیں اشتعال پھیلا ۔دونوں فریقین نے اپنے فعل سے پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت دیا اور انتہائی بدتہذیبی اور اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیاجس کی کوئی ان سے امید بھی نہیں کرسکتا تھا۔چند شدت پسند عناصر کی وجہ سے ان پیشوںسے جڑے دیگر معزز افرادکے سربھی شرم سے جھک گئے ہیں وہ موقف دینے میں بھی شرم محسوس کررہے ہیں۔ یہ بد تہذیب اپنا گھناﺅناکھیل کھیل چکے ہیں مگرحکومت کی جانب سے کوئی سخت ایکشن نظر نہیں آیا اور کچھ وکلاءکو ہی گرفتار کیاگیا ہے اور ڈاکٹرز کو حکومتی ہمدردی حاصل ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے اس واقعہ میںڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی ذمہ دار ہے ۔ حکومت کواس سانحہ کے تمام مجرموں ڈاکٹرزاور وکلاءکو نشان عبرت بنادینا چاہیے تاکہ آئندہ ایسا کام کرنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکے اگر ایسا نا کیا گیا اور مٹی پاﺅ کی پالیسی اختیار کی گئی تو جلد اس طرح کے اشتعال ،بدتہذیبی اورقانون شکنی کا ایک سیلاب بہت تیزی سے ملک میں تباہی مچا دے گا جسے کنٹرول کرنا ناممکن ہوگا۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔