صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
ہفتہ 20 اپریل 2024 

کسا ن اور زمیندار کا استحصال

دعاعلی | جمعرات 12 دسمبر 2019 

آج کل گنے کی کٹائی چل رہی ہے سوچا کیوں نہ آج گنے پر ہی لکھا جائے پہلے تو ذرا پچھلے 7 سال پرانے گنے کے ریٹ پر ایک نظر دوڑائی جائے۔2012 ءمیں گنے کاریٹ 180روپے اور2013ءمیں گنے کا ریٹ 170 روپے من مقرر کیا گیا ،2014 ءمیں گنے کا ریٹ پہلے 153 روپے من مقرر کیا گیا بعد میں زمینداروں کے دباو


¿ پر 180 روپے فی من کر دیا گیا،2015 ءمیں بھی 180 روپے من ریٹ رہا ،2016 ءمیں اس کا ریٹ 182 روپے من، 2017 ءمیں 160 روپے من،2018ءمیں بھی 182 روپے من مقررکیا گیا۔

 

 اور اب 2019 ءمیں بھی 182 روپے فی من ہی ہے۔ گویا گذشتہ 7برس میں گنے کے نرخ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ مہنگائی میں اضافہ جاری رہا ۔

حکومت کی ناقص معاشی و اقتسادی پالیسیوں کے سبب موجودہ دور میں بھی مہنگائی آسما ن سے باتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے،ضرورت کی ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے ،اس حوالے سے سر سعداللّٰلہ شاہ کا ایک شعر ہے

جسے کہتے ہیں مہنگائی اسے اب اور بڑھنا ہے

غریبوں کا ہی رونا ہے غریبوں ہی کا مرنا ہے

حکومت ختم کر دے گی سرے سے مسئلہ سارا

بہر صورت حکومت کو ہدف یہ پورا کرنا ہے

بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے چینی کا نرخ 50 روپے کلو سے 75تا 80روپے کلو ہوچکا ہے،لیکن گنے کا ریٹ جو ں کا توں ہے۔ گذشتہ چندسالوں کے دوران سندھ کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ سندھ کسی بھی قسم کی کاشت میں سب سے نچلے درجے پر رہا ہے ،کہیں پانی کا مسئلہ ہے تو کہیں گنے کے ریٹ کا ۔۔۔گذشتہ برس گنے کی پیداوار شروع ہونے کے ڈیڑھ سے دو ماہ بعد شوگرملوں نے کرشنگ کاکام شروع کیا ۔ گنا ٹرکوں میں ”شوگرملوں“کے باہر پڑا سڑتا رہا ،حکومت کی ناقص پالیسی کے سبب گنا اتنی زیادہ دیر تک رکھنے کی وجہ سکڑ کر آدھا رہ گیا یوں زمینداروں کا بہت زیادہ نقصا ن اٹھانا پڑا، پیدا شدہ صورتحال میں کسانوں نے احتجاج شروع کیا ،اپنے مطالبات کےلئے روڈ بلاک کئے،ریلیاں نکالیں، احتجاجی مظاہرے کئے مگر سندھ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔حکومتی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاشت کار اپنی زبوں حالی سے تھک ہار کر خوداپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے اناج کو خود ہی جلا نے لگے بقول علامہ اقبال ؒ

جس کھیت سے دہقان کو میسرنہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

کئی کاشت کارو ں نے گنے کے کھیتوں کو ہی آگ لگادی ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس بات سے لاعلم تھی؟یقینا حکومت صورت حال سے آگاہ تھی لیکن دیدہ و دانستہ اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا ۔جب ہر چیز کے ریٹ بڑھ گئے تو پھر صرف گناکاشت کرنے والے زمینداروں کےساتھ اتنی زیادتی کیوں ہوتی رہی ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ زمیندار جس قدر محنت و مشقت سے اپنے کھیت کھلیان آباد کرتے ہیں ،ان کے پاس اتنی محنت کے بعد کیا بچتا ہے۔۔اگر زمیندار کو اس کی محنت کا معاوضہ ہی نہ ملے تواس کا اسے کیا فائدہ،افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر حکومت ہمیشہ ہی زمینداروں اور کسانوں کا استحصال کرتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر زمیندار ہی کیوں خسارے میں جاتا ہے؟

 گنے کی کاشت پر آنے والے اخراجات اور اس سے ہونے والی آمدن کا جائزہ لیا جائے تووہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک ایکڑ میں کم و بیش 600 سے 800 من گنا نکلتا ہے ، زمین کی تیاری میں فی ایکڑ تقریباً10 ہزارروپے خرچ آتا ہے ،ایک ایکٹرکے لئے ایک ڈی اے پی بوری درکار ہوتی ہے جس کی قیمت 3600 روپے ہے8 سے10 بوری نائیٹروجن یوریا ڈالی جاتی ہے جو فی بوری 1850 روپے ہے یعنی10بوری 18,500 روپے کی بنتی ہیں اس کےساتھ ساتھ فی ایکڑ بیج تقریباً 20 ہزار روپے کاہے،فصل لگانے سے لے کر فصل اترنے تک کا خرچہ پیسٹی سائیڈاور کم از کم 4 بار گوڈی کا خرچہ فی ایکڑ 20 ہزار وپے آتا ہے،فصل تیار ہونے کے بعد فی من 15 سے 20 روپے تک کٹائی کی مزدوری ہوتی ہے ،قریبی سے قریب بھی اگر شوگر مل کود یا جائے تو 16 سے 18 روپے فی من ٹرانسپورٹ خرچ آتا ہے۔، 10من گنے سے ایک من چینی نکلتی ہے اور چینی کا نرخ تقریبا75سے80 روپے فی کلو ہے ،گنے کا ریٹ 182 روپے فی من مقرر ہے ،اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس قدر اخراجات کے بعد زمیندارکوکیا حاصل ہوتا ہے۔

بیج لگانے سے گنے کی کٹائی تک کی مدت 18 ماہ ہے ،آدھی فصل کسان جبکہ آدھی زمیندار کے حصے میں آتی ہے ، یعنی پورے ڈیڑھ سال کے انتظار کے بعد خرچہ نکال کر زمیندار خالی ہاتھ ہی رہتا ہے۔ کسانوں کے بچے بھوکے مررہے ہیں ،کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ کیا یہ کسان اور زمیندار کا استحصال نہیں کہ وہ پورے ڈیڑھ سال تک ایک فصل پر دن رات محنت کرتا ہے شدید بارش سے بچاتا ہے، سو تدبیریں کرتا ہے کہ کسی طرح اس کی روزی روٹی بچ جائے جوکاشت کار زمینیں آباد کرتے ہیں ا ن کے بچے دن رات بھوکے پیاسے تپتی ،چلچلاتی دوپہروں میں زمین پر کام کرتے ہیں کبھی اگر ہم لوگ تپتی دوپہروں کی گرمی کچھ دیر برداشت کر کے دیکھیں تو یقینا ہمیں دن میں تارے نظر آنے لگیں ۔اور اگر اتنی محبت و مشقت کے بعد بھی آخر میں اس کے حصے میں کچھ نہیں آئے تو اس کے دل پر کیا بیتے گی ۔

پاکستان میں زراعت کا شعبہ اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، زرعی ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہر چیز کے ریٹ دوگنا بڑھ گئے ہیں،مگر گنے کے ریٹ پچھلے7 سال پرانے ہی مقرر کیے گئے جب کہ گذشتہ7 سالوں میں مہنگائی میں50 فیصدسے بھی زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ 2017 میں حکومت نے گنے کا ریٹ 160 روپے من مقرر کیا تھا مگرسندھ کی شوگر ملوں نے زمینداروں کوگنے کا ریٹ 130 روپے من دیا اور کہا کہ 30 روپے بعد میں دیں گے جو آج تک نہیں دئیے گئے۔کچھ ملوں نے تو اصل رقم بھی زمیندارو ں کو اب تک نہیں دی۔

یہ زمینداروں کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے ،گویا حکومت کےساتھ ساتھ شوگر ملز مالکان بھی زمینداروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں اور رہی سہی کسر حکومت نے مہنگائی سے پوری کررکھی ہے۔زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے ہماری زراعت بھی زوال پذیر ہوچکی ہے۔ پاکستانی معیشت کو سب سے زیادہ نقصا ن ہمارے سیاسی زعماءنے پہنچایا ہے ،انہیں معیشت کی بدحالی کی کوئی فکر نہیں ،ان سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ ملک کے حقیقی مسائل پر دھیان دیں ۔ محترم سعداللّٰلہ شاہ نے اپنے ایک کالم میں ایک بارلکھا تھا کہ عمران خان کی باتیں اب تک کانو ں میں رس گھولتی ہیں، واقعی رس ہی گھولتی ہیں مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سن سن کر غریبوں کے کا ن بھی لہو لہان ہو چکے ہیں ۔خدارا !اب توکسان کو اس کا حق دینے کی تدبیر نکالیں ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقتدار کا نشہ شاید ایسا ہی ہوتا ہے جو بھی مسند اقتدار میں آتا ہے ہمارا خدا بن بیٹھتا ہے،اسے عوام کی فکر نہیں رہتی ،بلکہ وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کےلئے ہی سب اقدامات کرنے لگتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کےلئے زمینداروں اور کسانوں کے مسائل بھی حل کرنے کی راہ نکالے ، جب ملکی پیداوار بڑھے گئی تو معیشت بھی مضبوط ہو گی اور عوام کو خوشحال ہوںگے اور ہمیں کسی عالمی مالیاتی ادارے کا دست نگر نہیں ہونا پڑے گا ۔۔

ذرا سوچو کہ محشر میں

کھلے گا نامہ اعمال کا دفتر

بدی اور نیکیوں کا بھی

حساب اک دن تو ہونا ہے

ذرا سوچو خدا کو بھی

جواب اک دن تو دیناہے

حساب اک دن تو دینا ہے

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔