صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
ہفتہ 20 اپریل 2024 

'ڈیفنس کا محکمہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کر رہا، کیا عدالت کو بند کردیں؟'

اکثریت ڈیسک | جمعرات مئی 2019 

کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آپریشن نہ کرنے سے متعلق بیان دینے پر وزیر بلدیات سعید غنی اور مئیر کراچی وسیم اختر پر برہمی کا اظہار کیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن اور شہر کو اصل نقشے میں بحالی سے متعلق کیس کی سمات ہوئی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل، سیکریٹری دفاع، میئر کراچی وسیم اختر، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) افتخار قائمخانی، ایس ایس پی سہائی عزیز اور ایس بی سی اے، کے ایم سی، واٹر بورڈ سمیت دیگر اداروں کے نمائندے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے رہائشی علاقوں سے کمرشل سرگرمیوں کا خاتمہ کرکے شہر کو اصل ماسٹر پلان کے تحت بحالی کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مارکی اور کنوینشن ہال سمیت دفاعی مقاصد کے لیے مختص زمین پر کمرشل سرگرمیوں سے روک رکھا ہے۔

وزیر بلدیات اور میئر کراچی کے بیانات پر عدالت کا اظہار برہمی

دوران سماعت کراچی میں تجاوزات اور ملٹری لینڈ پر کمرشل سرگرمیوں کا معاملہ سامنے آیا تو سیکریٹری دفاع نے عدالتی حکم پر رپورٹ پیش کی ، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کردیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ یہ رپورٹ غیر اطمینان بخش اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صرف ایک نقطے پر عمل نہیں کیا۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سیکریٹری دفاع بتائیں، آرڈر پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق معاملے زیر غور آیا اس موقع پر تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق بیان دینے پر سپریم کورٹ نے وزیر بلدیات سعید غنی اور مئیر کراچی پر برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیر اور میئر کراچی جو کہتے پھر رہے ہیں ہم ایک بھی عمارت نہیں گرائیں گے، کیا انہوں نے عدالت سے جنگ لڑنی ہے؟

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم پہلے سب کو سن لیں پھر دیکھتے ہیں ان کو کہاں بھیجنا ہے، پورے شہر میں لینڈ مافیا منہ چڑھا رہا ہے اور یہ ایسی باتیں کررہے ہیں۔

ڈیفنس کا محکمہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کر رہا، جسٹس گلزار احمد

بعد ازاں عدالت نے کنٹومنٹ بورڈ و دیگر کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردی اور حکم دیا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بات ایک نقطے پر عمل درآمد کی نہیں، پورے آرڈر پر ہی عمل نہیں ہوا، ڈیفنس کا محکمہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کر رہا، کیا سپریم کورٹ کو بند کردیں؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا کیا کام ہے، بند کر دیا جائے؟

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں عدالتی احکامات پر عمل کیا گیا ہے، یہ جو اتنا بڑا پی اے ایف میں شادی ہال چل رہا ہے، کسی کو نظر کیوں نہیں آیا؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پہلے آپ لوگ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کریں، عام آدمی پوچھتا ہے کہ ہماری تجاوزات ہٹانے سے قبل کنٹومنٹ سے ہٹوائی جائیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت چاہے تو 5 منٹ میں سب بلڈوزر پہنچ جائیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فوج کو کیا اختیار ہے کہ سرکاری زمین الاٹ کرے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کا فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، ہمیں پتہ نہیں، نہ ہی اس کا حساب کتاب ہے۔

کیا پتہ میں بھی شہید ہو جاؤں یا مارا جاؤں، جسٹس گلزار احمد

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ 'کراچی شہر میں سب پارک اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرکے شہدوں کے نام کردئیے گئے، ہم شہیدوں میں نمبر ون ہیں کیا پتہ میں بھی شہید ہو جاؤں یا مارا جاؤں'۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہیدوں کا رتبہ بڑا ہے اس کے لیے بڑی شرائط ہیں، جس پر جسٹس گلزار نے ان سے استفسار کی کہ آپ کا مطلب ہے میں شہید نہیں بن پاؤں گا؟ 'ہم تو پیدا ہی شہید ہونے کے لیے ہوئے ہیں'۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ آپ لولی پاپ بنا کر دے رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں یہ لولی پاپ نہیں ہے عمل درآمد رپورٹ ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں سرکاری زمین ملٹری لینڈ نے نجی پارٹی کو دے دی، آپ کو زمین کی ضرورت نہیں ہے تو وفاق کو واپس کردیں۔

اس موقع پر رشید اے رضوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا، جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ ہم آج تاریخ رقم کرلیتے ہیں، یہ 9 ایکڑ سرکاری زمین ملٹری لینڈ نے پرائیوٹ پارٹی کو کیوں اور کس نے دی؟ اس پر کس کے دستخط ہیں ؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ ریٹائرڈ کرنل کے دستخط ہیں، ریٹائرڈ فوجیوں کو منصوبے کے لیے دوبارہ ملازمت پر رکھا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا ڈی جی ایس بی سی اے پر اظہار برہمی

جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی ایس بی سی اے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے استفسار کیا کہ آپ عدالت سے جیل جائیں گے؟

عدالت نے استفسار کیا کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ کراچی سے غیر قانونی تجاویزات ختم کروائیں اس کا کیا ہوا؟ کارروائی کہا تک پہنچی؟ بار بی کیو ٹو نائٹ کے سامنے بنی 2 غیر قانونی عمارتوں کا کیا ہوا؟

ڈی جی ایس بی سی اے نے عدالت کو بتایا کہ اس بلڈنگ کے خلاف نیب کی انکوئری چل رہی ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیا نیب؟ کون نیب؟ کیا نیب سپریم کورٹ سے اوپر ہے؟

عدالت نے حکم دیا کہ غیر قانونی تجاویزات کو ختم کریں یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اور اس پر عمل کریں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کالونی اور دہلی کالونی میں 8، 8 منزلہ عمارتیں بنائی جاتی ہے مگر وہاں نہ پانی ہوتا ہے نہ ہی لفٹ، زینب مارکیٹ سمیت پورے صدر میں غیر قانونی پارگنگ بنی ہوئی ہیں، جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ صدر میں اب کارروائی کی ہے۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔