صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

خیر سگالی یا بزدلی

احسان الحق | پیر 15 اپریل 2019 

عمران حکومت کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کریڈٹ جاتا ہے ۔ورثے میں ملے سخٹ ترین اور خراب ترین معاشی حالات کو ہینڈل کرنے کے حوالے سے ان کی ذاتی کاوشیں اس حد تک قابل قدر ہیں کہ روٹھے ہوئے دوست اور فطری اتحادی سعودی عرب کو نہ صرف منایا بلکہ ایک بھاری پیکیج لے کر وینٹیلیٹر پر حالت نزع میں مبتلا معیشت کی سانسیں بحال کیں لیکن نا اہل معاشی ٹیم اس پیکیج کے ثمرات سمیٹنے میں ناکام ہوئی تو دوسرے مرحلے میں بھی عمران خان کی شخصیت کام آئی اور ایک اور روایتی دوست متحدہ عرب امارات کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس دوستی کو بڑی کامیابی سے ملک کی معیشت کے لئے بروئے کار لا کر ان سے بھی ملک کے لئے ڈالروں کا تھیلا حاصل کیا ۔جسکے بعد جب سخت اوقات میں ہمیشہ ہمیں تھامنے والے چین کی طرف سے بھی معاشی امداد ملی تو عوام نے اس وجہ سے سکھ کا سانس لیا کہ عمران خان کے دست راست وزیر خزانہ اسد عمر اس سے قبل بار بار کہہ چکے تھے کہ اگر دوست ممالک سے 12 ارب ڈالر مل جاتے ہیں تو پھر IMF کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ ان کے اکثر شرائط عوام کش تھے اور جس سے کمر توڑ مہنگائی کا خدشہ تھا لیکن نا اہل ترین اسد عمر کی قیادت میں ان کی نالائق ٹیم ان اربوں ڈالر سے قومی معیشت کو اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور یوں عمران خان کی مخلصانہ کاوشیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں اور معیشت اتنی ڈھولنے لگی کہ خود اسد عمر کو کہنا پڑا کہ IMF سے قرض نہ لیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا اور یوں جس چیز کا خدشہ تھا کہ IMF سے قرض لینے کی صورت میں مہنگائی کا تاریخی اور ہیبت ناک لہر اٹھے گا جس سے عوام کی چیخیں نکلیں گی وہی ہوا اور حکومت نے اسد عمر کی مشاورت سے مہنگائی کا ایسا ریلا چلایا کہ اس میں سب کچھ بہتاہوانظرآیا۔۔اسی طرح خارجہ پالیسی کے حوالے سے موجودہ حکومت نے بعض اوقات جو بولڈ سٹینڈ لئے اس کو عوام نے بڑی حد تک سراہا۔اور ان بولڈ سٹینڈ کی وجہ سے پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔لیکن چونکہ یہاں بھی عمران حکومت کی خارجہ ٹیم شاہ محمود قریشی کی قیادت میںوہ کچھ کرنے لگی ہیں کہ اس کو بہر حال قومی امنگوں کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا وہ بھارت کے حوالے سے نام نہاد خیر سگالی کے نام پر بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ٹھیک ہے کہ بھارتی جارحیت کے بعد پاک فضائیہ نے ان کے کچھ ٹارگٹس کو نشانے پر لیا جن میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے آرمی چیف سمیت تمام فوجی قیادت بھی شامل تھی اور نشانے پر لینے اور دنیا پر ثابت کرنے باوجود خیر سگالی کا مظاہرہ کر کے ان کو ہٹ نہیں کیا تو یہ خیر سگالی کسی حد تک ٹھیک تھی اس کے بعد جارحیت کرنے والے ان کے پائلٹ ابی نندن کو بغیر کسی باگیننگ کے رہا کر کے ایک بار پھر ہم نے خیر سگالی کی تاریخ رقم کی اور اس خیر سگالی کو بھی مودی سرکار نے بڑی حد تک کیش کرکے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کے لئے استعمال کی حالانکہ ایک منٹ کے لئے اگر غور کیا جائے کہ اگر خدا نخواستہ ان تمام جنگی حالات میں ہم انڈیا کی نشانے پر آجاتے تو وہ تمام اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر وہ سب کچھ کر گزرتا جس سے ایک بڑی تباہی مچ جاتی بہر حال عالمی حالات کی وجہ سے قوم نے اس اقدام کو بھی ہضم کیا کیونکہ عالمی رہنماﺅں نے اس اقدام کی بڑی ستائش کی جس کو ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے سراہا حالانکہ عالمی برادری کو کھل کر بھارتی جارحیت کی مذمت کرنی چاہئے تھی جو کہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے نہ ہو سکی اور اس دوران جب مو ضی سرکار نے ہمیں ہماری نام نہاد خیر سگالی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے زندہ ابی نندن کے بدلے ایک لاش بھیجی تو بھی ہمارے حاکم اس کو بھارتی دہشت گردی کے خلاف کیش کرنے میں ناکام نظر آئے ۔بہر حال ہماری بزدلی اور موضی سرکار کی بدمعاشی کا سفر جاری رہا وہ بھارتی جیلوں میں قید بے گناہ پاکستانیوں کی لاشوں پر لاش ہمیں تحفہ میں دیتے رہے اور ہم ان لاشوں کے بدلے ان کے قیدی بڑے پروٹوکول سے رہا کرتے رہے 2 اپریل کو انہوں نے مذید ایک لاش ہمارے حوالہ کی اور ہم نے احتجاج کی بجائے بدلے میں اپنی قید میں 355 ماہی گیر رہا کر کے زندہ سلامت ان کے حوالے کئے لیکن پھر بھی خیر سگالی کا ہمارا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور سنگین الزامات میں انکے مذید 6 شہری بھی آزاد کر کے ان کے سپرد کئے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں 44 بے گناہ پاکستانیوں کا کیس بھارتی عدالت میں آٹھ سال چلا اور بھارتی عدالت نے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد کو نظر انداز کر کے ملزمان کو بری کر دیا لیکن ہم خیر سگالی کی بیڑیاں اپنے پاﺅں میں ڈالے کوئی زور دار ردعمل دینے میں ناکام رہے صرف فیس سیونگ کے لئے جذبے سے عاری نیم دلی سے ایک خبر چلا دی کہ حکومت اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں اپیل دائر کرنے کا سوچ رہی ہے ۔بھارت میں پٹا خاپھٹتا ہے تو چند سیکنڈ کے اندر وہ ہم پر بلا ثبوت الزام لگانے سے نہیں چوکتا ہم ہر فورم پر منتیں کر کر کے تھک جاتے ہیں کہ ثبوت دو ہم کاروائی کو تیار ہیں ان کے پاس دلیل ہوتی ہے اور نہ ثبوت اس کے باوجود ہم اپنے دیس میں ہندو بنئےے کی دشمنوں پر اپنی زمین تنگ کر دیتے ہیں ۔دوسری طرف یہاں اپنے دیس میں خود کش دھماکہ ہو کر اس میں بیسیوں شہید ہو جاتے ہیں ہم کسی پر الزام لگانے کی بجائے بھی جب پوری تحقیق کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے ہاتھ ان دھماکوں میں بھارت اور یہاں تک کہ اسرائیل اور امریکہ کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ہاتھ آجاتے ہیں لیکن ہم نام نہاد خیر سگالی کے نام پر بے غیرتی کی چادر اوڑھ کر چھپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں وہ کوئی مینڈیٹ اور قانونی جواز نہ ہونے کے باوجود کل بھوشن کا مسلہ عالمی عدالت انصاف لے جا کر ہمارے غدار کو ریلیف دینے میں کامیاب ہے ہم کشمیر اور خود اپنے ملک میں ان کی کھلی دہشت گردی پر اف تک اس لئے کرنے سے قاصر ہیں کہ کہیں خیر سگالی کے جذبے کو نقصان نہ پہنچے اس دوران انکشاف ہوا کہ بھارت اپنی بدمعاشی سے باز آنے والا نہیں اور کسی اور ایڈونچر کی منصوبہ بندی مکمل کر چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی رپورٹ ملتی ہے کہ اس ایڈونچر میں ان کو اسرائیل کی کھلی اور عملی اور امریکہ کی انٹیلی جنٹس کی اشیر باد حاصل ہے اب حقیقت میں ملک کی خارجہ محاذ پر حالات کچھ ایسے ہیں کہ امریکہ کو ہماری ضرورت ہے اور افغانستان سے محفوظ اور کسی حد تک باعزٹ واپسی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان کی ضرورت کو اپنے مفاد میں کیش کرنے میں ناکام ہیں۔۔یہ بات اب کھلا راز ہے کہ نواز ،زرداری حکومتوں کی طرح اس عوامی حکومت میں امریکہ اور انڈیا کے سامنے حق گوئی کی جر اا


¿ت ہے نہ حوصلہ۔ہم افغانستان میں موجود نیٹو کے لئے ایک دن کی سپلائی کاٹ لینے کا اعلان کر دیتے تو ان کے ہوش و حواس بحال ہوتے کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی ہم نے ماضی میں حالات کے جبر کے تحت ہی سہی ایسا اقدام لیا ہے تو امریکہ سب کچھ ماننے پر تیار ہوا۔لیکن اس بد بخت خیر سگالی کا کیا کیا جائے؟ جو عوامی خواہش کے باوجود ہماری جان چھوٹنے کو تیار نہیں ہے

 

موجودہ وزیر اعظم جب اپوزیشن میں تھے تو نواز ،زرداری کے دور ہائے حکومت میں ان کی بھارت نواز پالیسی پر کڑی تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن بد قسمتی سے آج وہ ان سے بھی دو ہاتھ جانے کو تیار نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مودی کو دوبارہ اقتدار ملا تو تو وہ مسلہ کشمیر حل کرینگے ۔ہاں ہمارے سادہ دل وزیر اعظم کا خیال صحیح ہے۔کیونکہ موضی مودی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور اس کا حل جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن والا ماڈل ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے مودی آئندہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اس مسلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتے ہیں سابقہ حکمرانوں نے جب انڈیا کی سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے کشمیر میں برسر پیکار تنظیموں پر امریکی حکم پر پابندی لگائی تو عمران خان نے اس وقت کے حکمرانوں کو غدار قرار دے کر ان کی شدید مذمت کی لیکن آج عمران خان امریکی تراش شدہ گرے لسٹ سے نام نکالنے کی خاطر نہ صرف ان پر پابندی لگائی بلکہ امریکی خوشنودی کے لئےے ان کا جینا دوبھر کیا ۔حالانکہ بھارتی در اندازی اور جارحیت کے خلاف پاکستان کے پاس صرف دو آڑ ہیں ایک پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور دوسرا کشمیر۔سابقہ حکمرانوں کی بھارت اور امریکہ نوازی کی وجہ سے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا لیکن آج سابقہ حکمرانوں کی مذمت کرنے والے ان سے دو قدم آگے بڑھانے پر تلے نظر آتے ہیں حالانکہ ان کو علم ہے کہ اگر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انڈیا کو اپنی 8 لاکھ فوج ایسی نکالنی پڑے کہ وہاں ان کی بالادستی پر حرف نہ آئے تو انڈیا کی پاکستان کے خلاف جارحیت کے جذبات میں کئی سو فیصد اضافہ نہ ہو جائے۔کشمیری حقیقت میں پاکستان کی جنگ لڑ رہے

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔