صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو

سلمان احمد قریشی | ہفتہ 23 مارچ 2019 

23مارچ کو بیگم نصرت بھٹو کی سالگرہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ضلعی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا، مشکلات حالات سے دو چار پی پی پی کا یہ فیصلہ قابل تعریف ہے کیونکہ ماضی سے کٹ کر مستقبل بہتر نہیں ہو سکتا۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والی نوجوان نسل کیلئے مادر جمہوریت اور ان کی خدمات کو جاننا ضروری ہے ، یہ تب ہی ممکن ہے اگر پارٹی اپنے لیڈران کی خدمات کو یاد رکھے اور کھلے بندوں نو جوان نسل کو اس سے متعارف کروائے۔پاکستانی سیاسی تاریخ میں بھٹو اتنا بڑا عنوان ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جانا باقی ہے ، بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ سر شاہ نواز بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، میر شاہنواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، بینظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے جاری و ساری ہے اور رہے گی، یہ سیاسی تاریخ جدوجہد بے مثل قربانیوں ، جلا وطنی، چیلنج در چیلنج سے عبارت ہے ۔ لاٹھیاں، قید و بند ، گولیاں ، بم دھماکے ، قتل اور کون سا ظلم نہیں جس کا سامنا اس خاندان کو نہ کرنا پڑا ہو ۔ بھٹو خاندان کی قربانیاں اتنی عظیم ہیں کہ ان سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اس خاندان کو ایک شہید کے وارث، مظلومیت کی تصویر، عوامی محبت اور ایثار و قربانی کا مرقع ہونے کے عظیم امتیا زات حاصل ہوئے ۔ قربانی اور ایثار کے اس پس منظر نے بھٹو خاندان کو پاکستان کے عوام کے دلوںکی دھڑکن بنا دیا ۔

بھٹو کی پھانسی معمولی بات نہیں واقعات اور شواہد ثابت کرتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے فیصلے کے وقت ہی یقین تھا کہ انہیں زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا ۔ بھٹو شہید نے جیل کی کال کوٹھڑی میں اپنی شریک حیات بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بینظیر بھٹو کو کہا تھا


©"میں جانتا ہوں جنرل ضیاءالحق کیا چاہتاہے مگر تم میری پوزیشن پر اس سے کوئی سودے بازی نہ کرنا ، معاملہ خواہ میری زندگی بچانے کا ہی کیوں نہ ہو"۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ءکو پھانسی دے دی گئی تو ایک عورت اپنے شوہر اور دوسری اپنے باپ کا آخری بار چہر ہ بھی نہ دیکھ سکیں ، دونوں کو آخری دیدار سے قطعی محروم رکھا گیا ۔یہ کونسا قانون تھا ۔۔؟ اس میں کیا سیاست تھی؟ جیل سے بھٹو کی صرف ایک نشانی شادی کی انگوٹھی بینظیر بھٹو کو پہنچائی گئی، اسے دیکھ کر قیدی بیٹی رونے لگی ، وہیں موجود بیوہ نصرت بھٹو نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ سفاک لوگ ان کے آنسو دیکھیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی عوام کیلئے کڑی آزمائش کا وقت تھا ، موقع پرست لیڈر شپ نے بھٹو خاندان کو دھوکے میں رکھا اور درپردہ مارشل لاءحکومت سے دوستی کر لی ۔ اب عوام تھی اور بیگم نصرت بھٹو ۔۔

 

قارئین ! پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بیگم نصرت بھٹو سے زیادہ مظلوم کردار نہیں ملتا ، 23مارچ 1929ءاصفہان میں پیدا ہونے والی نصرت اصفہانی 8ستمبر 1951ءکو نصرت بھٹو بنیں، یہ ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ تھی ۔ پاکستان کے ممتاز سیاسی اور امیر گھرانے کی بہو بیگم نصرت بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی عروج بھی دیکھا ، خدا نے انہیں دو بیٹوں میر مرتضٰی بھٹو، میر شاہنواز بھٹو اور دو بیٹیوں بینظیر بھٹو اور صنم بھٹو بھی عطا کیں۔ 1973ءسے 1977ءتک بیگم نصرت بھٹو خاتون اول کے طور پر اپنے خاوند کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں ساتھ رہیں ۔ پانچ جولائی 1977کے مارشل لاءنے بیگم نصرت بھٹو کی زندگی کے حالات بدل دے، خاوند کی سیاسی جدو جہد ، عوام کاا عتماد اور سیاسی ذمہ داریا ں ،شوہر کی گرفتاری،قتل کے مقدمہ میں ٹرائل اور بلآخر 4اپریل 1979ءذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نے اس آئرن لیڈی کو عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا ۔ عوام کی رہبری کا سوال شوہر کی جدائی کا دکھ، جوان بیٹی کےساتھ قید و بند کی صعوبت اور بیٹوں کی جلا وطنی جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءان حالات کا سامنا کرنا تھا بیگم نصرت بھٹو کو ۔پھر کیا تھا بیگم نصرت بھٹو نے ثابت کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ان سے شادی کا فیصلہ درست تھا ، بھٹو کا انتخاب لا جواب تھا ۔بھٹو کی میراث کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بیگم بھٹو نے کہا تھا شہید بھٹو تاریخ کی امانت ہیںاور انکا عہد اپنے پیچھے


©"جئے بھٹو "کا لازوال نعرہ چھوڑ گیا جو ابد تک گونجتا رہے گا ۔بھٹو کی بیوہ مادر جمہوریت کے طور پر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سر گرم رہی۔ قذافی سٹیڈیم میں لاٹھی چارج سے نہ صرف اس بہادر خاتون کا سر پھٹا بلکہ خون میں لت پت منتخب وزیر اعظم کی بیوہ کا چہرہ پاکستان کی جمہوری طاقتوںکو بہادری کا درس دے گیا ۔بد ترین آمریت نے 1982کو جب مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے کابل میں دو افغان بہنوں سے شادی کی تو ماں اور بہن جیل کی کوٹھڑی میں تصورات میں ڈوبی ہوئیں اس تقریب میں شریک تھیں ۔ اس کے بعد بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنے کی آرزو مند بیگم بھٹو نے اپنے 27سالہ بیٹے کو کفن میں ہی دیکھا ۔ 18جولائی 1985ءلاڈلے بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ، سیاسی جدوجہد میں قید و بند، جلا وطنی اور بلآخر 17اگست 1988ءجنرل ضیاءالحق فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے، ملک میں عام انتخابات ہوتے ہیں ۔ بینظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان بنتی ہیں ، خدا نے بلاول کی صورت میں بیٹے کی نعمت سے بھی نوازا ، بھٹو کی بیوہ کیلئے یہ دوبارہ خوشی کے دن تھے ۔ بیگم نصرت بھٹو بطور سینئر وزیر کابینہ کا حصہ بنیں ، بینظیر بھٹو بطور وزیر اعظم حکومتی امور میں مصروف رہیں، بیگم نصرت بھٹو ہی کارکنوں کا سہارا اور میدوںکا مرکز بنیں۔6اگست 1990ءبینظیر کی حکومت کا خاتمہ اور نئی سیاسی جدو جہد کا آغاز ہو تا ہے ، 6اکتوبر 1993کو الیکشن میں ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی ہے اور بینظیر دوبارہ وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوتی ہیں، اس دور حکومت میں نصرت بھٹو کو عجیب سیاسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ایک طرف بھٹو کی پارٹی بیٹی کی سربراہی میں بر سر اقتدار تو دوسری طرف لخت جگر میر مرتضٰی بھٹو کی پاکستان میںواپسی اور بینظیر کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ، بیگم نصرت بھٹو نے میر مرتضٰی بھٹو کا ساتھ دیا مگر پارٹی کارکنوںنے ووٹ بینظیر کو دئیے ، 1996ءمیں مرتضیٰ بھٹو کا ماورائے عدالت قتل بیگم نصرت بھٹو کیلئے ایسا صدمہ ثابت ہوا کہ یہ آئرن لیڈی ذہنی توازن کھو بیٹھی ، 27اکتوبر 2007ءبینظیر بھی دہشتگردی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ شوہر کی پھانسی، جوان بیٹے میر شاہنواز کی شہادت ، میر مرتضیٰ کی شہادت اور بیٹی کی شہادت نصرت بھٹو کی زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک مصائب و آلام آئے ، آخر یہ تنہا خاتون کتنے مسائل کا سامناکرتیں پہلے منتخب وزیر اعظم کی اہلیہ، عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی والدہ ، سیاسی اعزازات تو حاصل کرتی رہیں مگر یہ زندگی دکھوں کا سمندر ہے ، 1996ءسے 23اکتوبر 2011ءتک مادر جمہوریت کی سانسیں تو چلتی رہیں مگر وہ اس دنیا سے میر مرتضیٰ کی شہادت کے وقت ہی جا چکی تھیں۔

 

المیے ہی المیے بیگم بھٹو کٹھن ترین مراحل سے گزریں ، اپنی زندگی میں انہوں نے یکے بعد دیگرے صدمے اور بے پنا ہ تکالیف دیکھیں ۔ اقتدار گیا ، شوہر کا ساتھ چھوٹا ، بیٹوں کی المناک اموات ، ان المیوں کو بیان تو کیا جا سکتا ہے مگر محسوس نہیں کیا جا سکتا ۔ بیگم بھٹو نے اپنے حسین خواب مظلوم پاکستانیوں کی نظر کر دئے اور سیاست پر ایسے گہرے نقوش ثبت کئے جنہیں سالہا سال کی گرد بھی نہیں دھندلا سکی آج 23مارچ کو بھٹو کے جیالے بیگم نصرت بھٹو کی نوویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔ جی وہی نصرت بھٹو جس کا 23اکتوبر 2011ءبروز اتوار دبئی میں سانسوں کا یہ سلسلہ بھی ٹوٹا تھا، جسد خاکی مٹی میں شامل ہو گیا مگر مادر جمہوریت کی جدو جہد اور غم اور دکھوں سے بھرپور زندگی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے ۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔