صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

ہماری منزل، ہمارامقصد، اسلامی ریاست پاکستان

اختر سردار چودھری | ہفتہ 23 مارچ 2019 

پاکستان کو کیسا ہونا چائیے تھا ؟پاکستان کا قیام عمل میں لایا کس مقصد کےلئے گیا تھا؟آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟خواب دیکھنے پر بڑی بڑی باتیں کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے ۔لیکن حقیقت بڑی بھیانک ہے ۔اتنی بھیانک کے اس میںہم بے سمت ہجوم جو خود کو قوم کہلانے پر بضد ہیں اپنی منزل کا نشان تک کھو بیٹھے ہیں ۔ایک دور تھا جب مسلمان دنیا کی واحد سپر پاور ہوا کرتے تھے ۔مسلمانوں نے تقریباََ پوری دنیا پر حکومت کی ہے ۔کبھی مسلمانوں کا اتنا دبدبہ تھا جیسا اب امریکہ کا ہے ۔زوال کیوں آیا لمبی کہانی ہے ،پھر سہی ۔اب بات کرتے ہیں کیا مسلمان اپنے اس مقام کو کبھی دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ؟اس کا جواب بھی ہاں میں ہے ایسا ہو سکتا ہے ۔کرنا بس یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود مسلمان بننا ہے۔کون سا مسلمان نہیں ،صرف مسلمان ،سنی وہابی ،شیعہ ،دیو بندی ،بریلوی ،وغیر( نہیں) صرف مسلمان ۔ہمارا ایک نبی ﷺہے، ایک قرآن ہے ،ایک اللّٰلہ ہے اورہم کو صرف ایک قوم بننا ہے ۔

پاکستان کا قیام اسلامی نظام کے نفاذ کےلئے عمل میں لایا گیا تھا ۔اسی مقصد کےلئے ہمارے آباﺅ اجداد نے جان و مال اور عزت کی قربانیاں دیںتھیں ۔دسمبر 1947ءتک 47لاکھ سے زائد مہا جر پاکستان پہنچ چکے تھے ،یہ دنیاکی سب سے بڑی ہجرت تھی 10سے 15لاکھ مسلمانوںنے جام شہادت نو ش کیا، ان میں بیشتر تعدادعورتوں اوربچوں کی تھی ،قریباً ایک لاکھ مسلمان عورتوںکو اغواکر کے ان پر مجرمانہ حملے کئے گئے کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں۔پاکستان اب کیساہے؟ 22سے23کروڑ آبادی ،دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج ،ساتویں ایٹمی طاقت ،دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ،زرعی ملک ۔اس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اللّٰلہ نے اس کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے ۔ہمارے ہی ملک میںقانون ہمارا نہیں یعنی مسلم ملک میں اسلامی قانون نہیںہے۔ جس مقصد کےلئے پاکستان بنا تھا، ابھی تک وہ پورا نہیں ہوا ۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر صرف کاغذوں میں اصل میں عدالتی اور سرکاری زبان انگلش ہے ۔حتی کہ ہفتہ وار چھٹی بھی اسلامی نہیں اتوار کی ہے جمعہ کی نہیں ۔ہمارے پاس سوائے ماضی کے افتخار کے کچھ نہیں یا ہم ایک نعرہ پرست قوم ہیں۔

میرا پاکستان ایسا ہی ہونا چائیے جیسا اس کے بانیوں نے خواب دیکھا تھا ۔علامہ اقبال کے خواب کی تعبیرجیسا ، محمد علی جناح کے خیال جیسا ۔ پاکستان اپنے بانیان کے تصورات کا آئینہ دار ہو۔قائد اعظم نے ایک بار فرمایا تھا ۔پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انہیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کےساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے ۔ انہوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔

 لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں ،جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے ؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے ؟ اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔15 نومبر 1942 ءمیں قائد اعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا۔” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے ساڑھے14سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کےساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کےلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔

ہماری منزل ، ہمارامقصد مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست ہونا چائیے ۔مدینہ منورہ کی ریاست ہمارے لیے ایک بہترین ماڈل ہے ،جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں فلاحی نظام وضع کیا گیا تھا ،اس بابرکت اسلامی ریاست ریاست میں عدلیہ آزاد تھی ۔مفت انصاف ملتا تھا ۔اور فورا سچ کو جھوٹ سے الگ کر کے فیصلہ سنایا جاتا تھا ۔اور اس پر اتنی ہی تیزی سے عمل ہوتا تھا ۔سچائی کو پرکھنے کا پیمانہ قرآن و سنت رسول ﷺتھا ۔معاشرے میں دولت اور دیگر وسائل کی عادلانہ ،منصافنہ ،مساوانہ تقسیم کا بندوبست تھا۔زکوٰة اور انفاق فی سبیل اللّٰلہ کی ترغیب کے ذریعہ دولت کا ر


±خ امراءسے غرباءکی طرف پھیردیا گیا تھااور ایک وقت چشم فلک نے دیکھا کوئی زکوٰة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ایسے تمام طریقوں پر نہ صرف پابندی تھی، بلکہ کڑی سزا تھی ،جس سے دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے۔ مثلاً سود ، ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری وغیرہ ۔

 

عوام کی تمام بنیادی ضروریات مثلاََ روزگار، خوراک ، لباس ،صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا۔ شیر خوار بچوں ،بوڑھوں،بیماروں ،مسکینوں کےلئے ریاست کی طرف سے وظائف دئیے جاتے تھے۔قانون کا احترام سب کےلئے لازم تھا بے شک وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو۔ تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ تھی ،یاد رہے میں نے لفظ تعلیم و تربیت لکھا ہے ۔صرف معلومات کا حصول جسے آج علم کا نام دے دیا گیا ہے نہیں لکھا ۔آج بھی ہم اپنے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ممکن بنا کر یہ سب برکات حاصل کر سکتے ہیں ۔بے شک ایسا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ہے ،اس کےلئے ہمارے ملک کو انتخاب کی نہیں، انقلاب کی ضرورت ہے ۔یاد رہے پاکستان کے قیام کا مقصد ہی اسلامی نظام کا نفاذ تھا ۔تمام مکاتب فکر کے علماءپر مشتمل ایک پینل بنایا جائے جو ایک متفقہ اسلامی آئین کی تشکیل کریں۔جس پر پاکستان کے تمام مکاتب فکر متفق ہوں ،جو اسلام کی روح کے عین مطابق ہو ایسا آئین بنایا جائے۔عدل و انصاف کا سسٹم ایسا بنایا جائے کہ کسی کےساتھ زیادتی نہ ہو ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کوئی اور نہیں انصاف کا حصول ہے۔

پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کےلئے ایک محب وطن افراد پر مشتمل ایک قومی ادارہ بنایا جائے۔سود اللّٰلہ سے جنگ ہے ،اس لیے فوری طور پر ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کر دیا جائے ، غیر جانبدار ادارہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک کاکڑا احتساب ہو سکے ۔ ملک سے باہر رقم لے جانے پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ملک سے جاگیرداری اور سرداری نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔فرقہ بندی پر مکمل پابندی ہو۔ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار نہ دے سکے۔ملک کی قومی زبان کو سرکاری اور عدلیہ کی زبان قرار دیا جائے اور اس کا نفاذ یقینی بنایا جائے ۔ہماری ثقافت، ہماری تاریخ، قومی زبان اور مذہب اسلام سے عوام آشنا ہو سکیں ۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔