صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 29 مارچ 2024 

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460ارب روپے کی پیشکش قبول کر لی

اکثریت ڈیسک | جمعرات 21 مارچ 2019 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں کراچی کے منصوبے کے لیے 460ارب روپے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے نیب کو ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی زیر سربراہی بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت ہوئی جس میں بحریہ ٹاؤن کراچی کا فیصلہ سنا دیا۔ گزشتہ سماعت پر بحریہ ٹاؤن نے 440ارب روپے سے بڑھا کر پیشکش 450ارب روپے کردی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بحریہ ٹاؤن ستمبر سے ماہانہ 2.25 ارب روپے چار سال تک ادا کرے گا اور پھر بحریہ ٹاؤن آخری 3سال میں بقیہ رقم ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ آخری 3سال کی بحریہ ٹاؤن کو رقم پر 4 فیصد مارک اپ بھی ادا کرنا ہوگا جبکہ بحریہ ٹاؤن تمام 460 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ رقم کی ادائیگی سے متعلق بحریہ ٹاون کے ڈائریکٹر بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں گے اور اگر بحریہ ٹاون اقساط کی ادائیگی میں تاخیر کرے گا تو 4 فیصد سود ادا کرے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ رقم عدالت میں جمع ہوگی اور پھر اس کو قانون مطابق جس کو دینی ہے، ہم دیں گے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب کو بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق ریفرنس دائر کرنے سے بھی روک دیا۔

  • بحریہ ٹاؤن کیس

4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن نے وہ پلاٹ بھی فروخت کیے جو اس کی ملکیت نہیں تھے’

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

دوسری جانب عدالت نے اپنے ایک اور فیصلے میں اسلام آباد کے قریب تخت پڑی میں جنگلات کی زمین کی از سر نو حد بندی کا حکم دیا اور کہا کہ تخت پڑی کا علاقہ 2210 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے، لہٰذا فاریسٹ ریونیو اور سروے آف پاکستان دوبارہ اس کی نشاندہی کرے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کو جنگلات کی زمین پر قبضے کا ذمہ دار قرار دیا اور مری میں جنگلات اور شاملات کی زمین پر تعمیرات غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مری میں ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مزید تعمیرات کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے پہلے 250 ارب روپے کی پیش کش کی تھی جسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔

تاہم اسے بھی عدالت نے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے کراچی کے منصوبے کے لیے 405 ارب روپے کی پیش کش کی تھی لیکن عدالت نے اس پیش کش کو بھی مسترد کردیا تھا۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔